بیجنگ (انٹرنیشنل ڈیسک) چین اور روس نے شمالی کوریا کے قریب مشترکہ بحری جنگی مشقوں کا آغاز کر دیا ہے۔ یہ مشقیں ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہیں جب شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل تجربات کے سبب تناؤ کافی زیادہ ہے۔ چینی سرکاری خبر رساں ایجنسی شنہوا کے مطابق یہ مشقیں ’پیٹر دی گریٹ بے‘ اور بحیرہ اوہاٹسک کے جنوبی حصے میں کی جا رہی ہیں۔ پیٹر دی گریٹ بے روس کی مشرقی بندرگاہ ولادی ووسٹوک اور شمالی کوریا کی سرحد کے قریب ہے۔
رواں برس کے دوران چین اور روس کی یہ دوسری مشترکہ جنگی مشقیں ہیں۔ چین اور روس دونوں کوریائی بحران کے پر امن حل کے حامی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق جنگی مشقیں شروع ہونے کے بعد پیانگ یانگ کی جانب سے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا۔ یہ مشقیں ایسے وقت پر ہورہی ہیں جب 3 ستمبر کو کیے جانے والے شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور اس کے جواب میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیانگ یانگ پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔
چین اور روس دونوں کا موقف رہا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شمالی کوریا کے ساتھ اپنا تنازع بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے لیکن دونوں عالمی طاقتوں نے گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کی حمایت کی تھی جس کے ذریعے شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کردی گئی ہیں۔ نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے ردِ عمل میں شمالی کوریا نے جمعے کو ایک بار پھر میزائل تجربہ کیا تھا جس کے دوران اس کا بیلسٹک میزائل جاپان کی فضائی حدود سے گزرا تھا۔ شمالی کوریا کی جانب سے فائر کیے جانے والے بیلسٹک میزائل کا جاپان کی حدود سے گزرنے کا 3 ہفتوں کے دوران یہ دوسرا واقعہ تھا جس پر امریکا اور اس کے اتحادیوں نے شدید برہمی ظاہر کی تھی۔ میزائل تجربے کے بعد جاپان کے وزیرِ اعظم شینزوآبے نے کہا تھا کہ شمالی کوریا کے ساتھ سفارت کاری اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی دھمکیوں کے مقابلے پر عالمی برادری کو متحد ہو کر پیانگ یانگ پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔ اتوار کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون میں جاپانی وزیر اعظم نے کہا کہ شمالی کوریا کے مسلسل میزائل تجربات کے جواب میں اس پر عائد پابندیاں مزید سخت کی جانی چاہییں۔ اقوامِ متحدہ میں امریکا کی سفیر نکی ہیلی نے بھی خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل کو دستیاب آپشن ختم ہوتے جارہے ہیں اور امریکا یہ معاملہ پینٹاگون کو سونپ سکتا ہے۔
شمالی کوریا نے کہا ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے امریکا کے ساتھ دفاعی توازن قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے میزائل اور جوہری تجربات اسی مقصد کے حصول کے لیے کیے جارہے ہیں۔ دوسری جانب جرمن وزیر خارجہ زیگمار گبرئیل نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کے حوالے سے جاری بحران کے حل کے لیے پیانگ یانگ حکومت کے ساتھ براہ راست مذاکرات کرے۔ جرمن اخبار ’ بِلڈ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے گبرئیل کا کہنا تھا کہ پیانگ یانگ کو جوہری بم کے بجائے دیگر ذرائع سے سیکورٹی کی یقین دہانی کرانے کے لیے شمالی کوریا، امریکا، چین اور روس کے درمیان براہ راست بات چیت کی ضرورت ہے۔ جرمن وزیر خارجہ نے خیال ظاہر کیا کہ شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ ان بے وقوف نہیں ہیں بلکہ وہ انتہائی نپی تلی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ جوہری بم کی موجودگی میں ان کی حکومت محفوظ رہے گی اور کوئی انہیں دھمکانے کی کوشش نہیں کرے گا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق زیگمار گبرئیل کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی طرف سے شمالی کوریا کے خلاف لگائی گئی نئی پابندیوں کا اثر ظاہر ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایران کی مثال دی کہ وہاں کس طرح بین الاقوامی پابندیوں کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے۔
جرمن وزیر خارجہ کی طرف سے یہ بیان ان کے دورہ چین کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ اس دورے کے دوران انہوں نے چینی حکام کے ساتھ اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا کہ شمالی کوریا کے حالیہ جوہری اور میزائل تجربات کے بعد پیدا ہونے والے شدید بحران کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے۔ شمالی کوریا کی طرف سے اپنے چھٹے جوہری تجربے اور پھر بین البراعظمی میزائلوں کے تجربات کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس ملک کے خلاف نئی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ تاہم شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان نے ان پابندیوں کی حمایت پر جاپان کو دھمکی دی تھی کہ وہ اسے سمندر میں ڈبو دے گا جب کہ امریکا کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اسے خاک میں بدل دیا جائے گا۔ دریں اثنا ذرائع ابلاغ کے مطابق چینی صدر شی جن پنگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جزیرہ نما کوریا کی صورتحال پر بات چیت کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیلیفون پر پیر کے روز ہونے والی اس گفتگو میں چینی صدر نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان بڑے پیمانے پر مفادات مشترک ہیں۔ علاوہ ازیں امریکی صدر ٹرمپ کے مستقبل قریب میں چینی دورے پر بھی بات کی گئی۔