امریکا: ’بلا اجازت آپریشنز‘ کا سلسلہ شروع کرنے پر غور

95

واشنگٹن (انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی اخبار روزنامہ ’نیو یارک ٹائمز‘ نے خبر دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ جنگ کے روایتی میدان سے ہٹ کر ڈرون حملوں اور کمانڈو نوعیت کے چھاپوں سے متعلق اوباما دور میں عائد کردہ اہم پابندیوں کو اٹھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ اطلاع دینے والے اہل کاروں کے مطابق ایسی تبدیلیاں لانے سے اُن ملکوں میں انسدادِ دہشت گردی کے مشن کی راہ ہموار ہوگی، جہاں شدت پسند سرگرم عمل ہیں لیکن امریکا نے اس سے قبل انہیں ہلاک کرنے یا پکڑنے کا کام انجام نہیں دیا۔ رپورٹ میں اہل کاروں کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اِس ضمن میں صدر ٹرمپ کے اہم قومی سلامتی کے مشیروں نے 2 قواعد میں رعایت برتنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ اول یہ کہ اہداف کو نشانہ بنانے سے متعلق فوج اور سی آئی اے کے مشنزجو اِس وقت عام طور پر اعلیٰ سطح کے شدت پسندوں تک محدود تھے ،



جن سے امریکیوں کو مستقل اور کھلا خدشہ درپیش تھااُسے وسعت دے کر اب پیدل جنگجوؤں تک بڑھا دیا جائے گا، جو خاص مہارت کے مالک نہیں یا جن کا کوئی قائدانہ کردار نہیں ہے ۔ دوسرا یہ کہ مجوزہ ڈرون کارروائیوں اور چھاپوں کے لیے اب پیشگی اعلیٰ سطح کا اجازت نامہ درکار نہیں ہوگا۔ تاہم انتظامیہ کے اہل کاروں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ ایسی کارروائیوں کے لیے ایک کلیدی دشواری کو مدِ نظر رکھا جانا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے‘ کہ کسی طور پر بھی شہری آبادی کو کوئی جانی نقصان نہ پہنچے ۔ اس تجویز پر انتظامیہ کے اہل کاروں نے کئی ماہ تک ضابطوں کی جانچ پڑتال پر غور و خوض کیا اور رپورٹ کے مطابق اب اس پر صدر ٹرمپ کے دستخط ہونا باقی ہیں۔ شہری آبادی کو تحفظ دینے کے معاملے کے علاوہ امکان ہے کہ انسانی حقوق کے گروپ دیگر ممکنہ تبدیلیوں پر نکتہ کریں گے ۔ یہ پالیسی اپنائے جانے کے بعد القاعدہ، داعش اور دیگر جنگجوؤں کے خلاف تواتر سے مزید کارروائیاں کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔ رپورٹ کے مطابق ایسی کارروائیاں اُن ملکوں میں بھی کی جا سکتی ہیں جہاں کئی برسوں سے امریکا داعش کے شدت پسندوں کے خلاف حربی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے ، جن میں یمن، صومالیہ اور لیبیا شامل ہیں اور اب اِن خطوں کے علاوہ اکا دکا افریقا، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے غیر حربی علاقوں تک بڑھایا جا سکے گا جہاں دہشت گرد سرگرم ہیں۔
امریکا ؍ آپریشنز