نیپیداؤ (انٹرنیشنل ڈیسک) میانمر کی حکومت ریاست راکھین میں جاری تشدد کے دوران جلائی گئی بستیوں اور قریب 5 لاکھ روہنگیا باشندوں کے علاقہ چھوڑنے کے بعد وہاں تعمیر نو کرے گی، تاہم اب ان علاقوں پر حکومت کا قبضہ ہوگا۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس اعلان سے ان لاکھوں روہنگیا مہاجرین کی واپسی پر بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں، جو راکھین میں جاری تشدد کی وجہ سے سرحد عبور کر کے بنگلادیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تشدد سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 80 ہزار روہنگیا افراد بنگلادیش پہنچ چکے ہیں اور روہنگیا کے خلاف میانمر کی فوج کے اقدامات ’نسل کشی‘ کے زمرے میں آ سکتے ہیں۔ میانمر کے وزیر برائے سماجی ترقی، فلاح اور تعمیر نو ’میات آئے‘ نے راکھین ریاست کے مرکزی شہر ستوے میں ایک مقامی اخبار سے بات چیت میں کہا کہ قانون کے مطابق جلایا جانے والا علاقہ حکومت کی ملکیت میں آ چکا ہے۔
میات آئے نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کے قانون کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس متاثرہ علاقے میں ترقی دیکھنے والی ہو گی۔ تاہم انہوں نے اپنے بیان میں یہ واضح نہیں کیا کہ آیا علاقہ چھوڑ کر فرار ہو جانے والے روہنگیا کو دوبارہ ان علاقوں میں بسایا جائے گا یا نہیں یا ان افراد کی واپسی کب ممکن ہو گی۔ انسانی حقوق کے گروپ سیٹلائٹ تصاویر کی مدد سے بتاتے ہیں کہ روہنگیا افراد کے قریب 400 دیہات میں سے نصف سے زائد اس تشدد میں جلا کر خاکستر کیے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے کہا ہے کہ روہنگیا افراد کو میانمر کی شہریت دلوانے کے معاملے پر پیشرفت کی ضرورت ہے اور اس بے وطن برادری کے مسائل کا حل ممکن ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق اس سلسلے میں عالمی ادارہ اپنی خدمات اور مہارت پیش کرنے کو تیار ہے۔ اقوام متحدہ کے کمشنر برائے مہاجرین فلیپو گرانڈی کے مطابق وہ اگلے ہفتے میانمر کے حکومتی وفد سے جنیوا میں ملاقات کے دوران اس موضوع پر بات کریں گے۔