درجنوں یہوری آباد کاروں کا پھر قبلہ اول پر دھاوا 

201

مقبوضہ بیت المقدس (انٹرنیشنل ڈیسک) مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کے دھاوے جاری ہیں۔ فلسطینی ذرائع ابلاغ کے مطابقجمعرات کے روز درجنوں یہودی آباد کاراسرائیلی فوج اور پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے اور قبلہ اول میں مذہبی رسومات کی آڑ میں مقدس مقام کی بے حرمتی کی۔ مسجد الاقصیٰ میں جمعرات کو دن کے پہلے حصے میں اسرائیلی پولیس کی فول پروف سیکورٹی میں درجنوں یہودی شرپسندوں نے قبلہ اول کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا۔عینی شاہدین نے بتایا کہ یہودی آباد کاروں کی بڑی تعداد مراکشی دروازے کے راستے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئی۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج اور پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی۔اطلاعات کے مطابق مسجد اقصیٰ کے دروازوں کے باہر تعینات کی گئی اسرائیلی پولیس نے فلسطینی نمازیوں کے ساتھ بدسلوکی کی اور ان کی شناخت پریڈ کے ساتھ انہیں قبلہ اول میں عبادت کے لیے داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ صہیونی فوج کی (باقی صفحہ 9 نمبر 12)
جانب سے روکنے پر فلسطینی مشتعل ہوگئے اور انہوں نے صہیونی فوج اور پولیس کی غنڈاگردی کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ دوسری جانب اسرائیل کی مرکزی عدالت نے زیرحراست بزرگ فلسطینی رہنما اور اسلامی تحریک کے امیر الشیخ راید صلاح کی گرفتاری کے خلاف دی گئی نظرثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے انہیں بدستور جوڈیشل ریمانڈ کے تحت پولیس کی تحویل میں رکھنے کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔



اسلامی تحریک کے سربراہ الشیخ راید صلاح کے وکلا نے اسرائیلی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی، جس میں اپیل کی گئی تھی کہ شیخ صلاح کو رہا کیا جائے اور ان کے خلاف جاری مقدمہ کی سماعت ان کی رہائی کے بعد کی جائے، تاہم عدالت نے اپیل مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ راید صلاح کو رہا نہیں کیا جاسکتا۔ جب تک ان کے خلاف جاری عدالتی کارروائی مکمل نہیں ہوتی اس وقت تک وہ پولیس کی تحویل میں رہیں گے۔اس موقع پر الشیخ راید صلاح خود بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ تمام تر مشکلات کے باوجود میں صہیونی حکام کے دباؤ میں نہیں آؤں گا اور اپنے اصولی موقف پر ڈٹ کر کھڑا رہوں گا۔ان کا کہنا تھا کہ صہیونی مجھے قرآن کی کسی آیت، کسی حدیث پاک، مسجد اقصیٰ کی کسی اینٹ اور پتھر، کسی اسلامی دیرینہ اصول، عرب اور قومی مطالبے سے دست بردار نہیں کرسکتے۔ خیال رہے کہ الشیخ راید صلاح کو اسرائیلی فوج نے 15 اگست 2017ء کو حراست میں لیا تھا۔ ان پر اسرائیلی ریاست کے خلاف تشدد کو ہوا دینے اورفلسطینی مزاحمت کاروں کی حمایت سمیت کئی دوسرے الزامات عاید کیے گئے ہیں۔الشیخ راید صلاح اپنی ایک سابق پیشی کے موقع پر اپنے ساتھ برتے جانے والے غیر انسانی سلوک پر پہلے بھی احتجاج کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عقوبت خانے میں انہیں ٹوائلٹ نما کوٹھڑی میں بند کیا گیا ہے، جہاں وہ رفع حاجت کرنے، نماز ادا کرنے، قرآن کی تلاوت کرنے اور لیٹنے پر مجبور ہیں۔ ادھر قابض صہیونی حکام کی طرف سے مسجد اقصیٰ بیت المقدس کی ایک سرکردہ رہنما اور معلمہ پر مسجد اقصیٰ میں داخلے پر ایک ماہ کی پابندی عاید کی گئی ہے۔ بیت المقدس کی رہایشی شیخہ بکیرات کو اسرائیلی پولیس کی طرف سے ایک نوٹس جاری کیا گیا ہے جس میں انہیں کہا گیا ہے کہ وہ ایک ماہ تک مسجد اقصیٰ میں نماز کے لیے داخل نہیں ہوسکتیں۔ اگر وہ نوٹس ملنے کے بعد بھی مسجد میں آئیں تو انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔مقامی ذرایع کا کہناہے کہ شیخہ بکیرات کو اس سے قبل بھی اسرائیلی فوج اور انٹیلی جنس حکام کی طرف سے سنگین نتائج کی دھکیاں دی جاتی رہی ہیں۔ انہیں مسجد اقصیٰ میں باقاعدگی سے آنے کی پاداش میں بار بار ڈرایا اور دھمکایا جاتا رہا ہے، تاہم وہ دھکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے قبلہ اول سے اپنا تعلق قائم رکھے ہوئے ہیں۔بکیرات کا شمار مسجد اقصیٰ کی دیرینہ مرابطات اور نمازیوں میں ہوتا ہے۔
قبلہ اول پر دھاوا