لاس ویگاس حملہ ۔ ایک اور جال

331

مسعود انور
امریکا میں جوئے کے مرکز لاس ویگاس میں کنسرٹ پرفائرنگ کے بعد حکومت کے موقف نے ایک مرتبہ پھر سے ملک میں ہونے والے حادثات و واقعات کے بارے میں سوال اٹھادیے ہیں ۔ اس افسوس ناک واقعے کے فوری بعد بتایا گیا کہ ایک شخص ہوٹل کی 32ویں منزل پر ٹھہرا ہوا تھا اور اس نے وہیں سے نیچے ہونے والے کنسرٹ پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 59 افراد جان سے گئے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ جب پولیس ملزم کو تلاش کرنے کے بعد اس کے کمرے کا دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئی تو وہ پہلے ہی خودکشی کرچکا تھا ۔ یہ کہانی پہلے روز سے مین اسٹریم میڈیا پر گردش میں ہے اور اب تک اسی موقف کو ہر جگہ پر پیش کیا جارہا ہے۔ امریکا اور یورپ میں پیش آنے وا لے گزشتہ واقعات میں اور اس واقعے میں بس اتنا فرق ہے کہ اس میں ملزم ایک سفید فام پیدائشی امریکی ہے ۔ اس لیے اس سانحے کے بارے میں پہلے ہی لمحے یہ وضاحت کردی گئی کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ نہیں ہے ۔
اس سانحے کے بارے میں متبادل ذرائع ابلاغ پر جو سوالات اٹھائے گئے اور جو حقائق پیش کیے گئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ بھی دیگر واقعات کی طرح ایک سرکاری ڈراما تھا جس سے ایک ہی جست میں بہت کچھ حاصل کرنا مقصود ہے۔ سب سے پہلے ان سوالات اور ان حقائق کو دیکھتے ہیں جو متبادل میڈیا پر موجود ہیں اور پھر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر اس تھیٹر ڈرامے سے کیا حاصل کرنا مقصود ہے۔ امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ڈلاس میں فلیٹوں پر مشتمل ایک عمارت کا مالک اسٹیفن پیڈاک کا شمار خوشحال لوگوں میں ہوتا تھا۔ اس کے ریکارڈ سے کہیں ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ مجرمانہ مزاج رکھتا تھا ۔ پیڈاک جوا کھیلے کا شوقین تھا مگر سانحے والے دن سے لے کر ماضی قریب تک کسی بھی دن وہ بری طرح جوئے میں نہیں ہارا تھا کہ اسے مایوسی کا شکار کہا جاسکے۔ اس کی دوست کا کہنا ہے کہ وہ نہیں مان سکتی کہ پیڈاک ایسا کرسکتا ہے ۔ لاس ویگاس کے مہنگے ترین کیسینو اور ہوٹل Mandalay Bay Resort and Casino میں اس نے کسی سستے کمرے کے بجائے سوئٹ بک کروایا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ اور اس کے ملازمین کے مطابق انہوں نے پیڈاک میں کوئی غیر معمولی بات نہیں دیکھی ۔ اب چند حقائق کو دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ایک اہم بات ۔ کیسینو دنیا بھر میں ان مقامات میں شمار ہوتے ہیں جس کا ایک ایک انچ کئی کئی زاویوں سے کیمروں کی زد میں ہوتا ہے اور ہر شخص کی ہر حرکت لمحہ بہ لمحہ کئی کیمرے ہر زاویے سے ریکارڈ کررہے ہوتے ہیں ۔



یہاں اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسٹیفن پیڈاک اس جگہ پر نصب 4 ہزار کیمروں سے بچ کر اپنے سوئٹ میں اسلحہ لے جانے میں کامیاب کیسے ہوا؟ ایک 58 سالہ یا 64 سالہ شخص جس کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور نہ ہی کہیں سے تربیت یافتہ ہے ، ہوٹل کے تمام کیمروں اور ملازمین کو چکما دیتے ہوئے خفیہ طور پر 400 پو نڈ کے قریب اسلحہ اور ہتھیار لے کر 32 ویں منزل پر لے جانے میں کامیاب ہوجاتا ہے ۔ اس کمرے میں وہ اسنائپر شوٹنگ کے لیے خفیہ انتظامات کرتا ہے جس کی روزانہ کمرہ صفائی کرنے والے ملازمین کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہ سارے فائر الارمز اور دیگر سیکورٹی کے نظام کو ناکارہ بنا دیتا ہے ۔ اس کی اطلاع تو کیا بھنک بھی سیکورٹی پر مامور عملے کو نہیں پڑتی۔ اس کے بعد یہ غیر تربیت یافتہ شخص اپنے کمرے کے باہر کیمرے نصب کرتا ہے تاکہ باہر کی آمدورفت کی نگرانی کرتا رہے۔ مگر اس عمل پر بھی کسی کو شک تک نہیں ہوا۔ اس ہوٹل میں امریکا میں آنے والے خوفناک طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خصوصی طور پر بھاری شیشے کی کھڑکیاں لگائی گئی ہیں۔ بڑھاپے میں داخل ہوتا یہ شخص 800 پونڈ بھاری شیشے کی اس کھڑکی کو اتارتا ہے تاکہ ہر زاویے سے فائرنگ کرسکے۔ ان تمام انتظامات کے بعد یہ اکیلا غیر تربیت یافتہ شخص انتہائی مہارت سے 10 منٹ تک تاک تاک کر ایسے فائرنگ کرتا ہے کہ اس کا ایک نشانہ بھی نہیں چوکتا۔ اتنے میں پولیس اس کے کمرے کا پتا لگالیتی ہے اور اس کے کمرے پر دھاوا بول دیتی ہے۔ پولیس کو معلوم ہے کہ یہ مسلح ہے پھر بھی ماضی کی کارروائیوں کے برخلاف جس میں کئی کئی دن تک محاصرہ رکھا جاتا ہے، یہ پولیس اہلکار دلیرانہ انداز میں دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوجاتے ہیں اور یہ شخص کہاں پوری دنیا کو مارے ڈال رہا ہے اور کہاں اپنے نصب کردہ کیمرے میں پولیس کو آتا دیکھ کر خود کو ہی گولی مار کر اپنی جان ختم کرڈالتا ہے۔ ہے نا یہ ایک فلمی کہانی۔
اس کے بعد کے معاملات بھی مشکوک ہیں۔ ہوٹل ریکارڈ کے مطابق پیڈاک کے ساتھ دوسرا شخص بھی تھا مگر اس کے بارے میں پولیس پراسرار طور پر خاموش ہے ۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد حاصل ہونے کے باوجود کچھ نہیں بتارہی کہ یہ شخص کون تھا اور کب کمرے سے باہر گیا اور اب کہاں ہے ۔پولیس کے مطابق پیڈاک نے خودکشی کی مگر اس کے سینے پر گولیوں کے خول پائے گئے۔ اسی طرح پیڈاک کے کمرے کی سائیڈ ٹیبل پر ایک نوٹ بھی لکھا ہوا ملا۔ پولیس کے مطابق یہ خودکشی کا نوٹ نہیں تھا مگر اس کی تحریر ابھی تک عام نہیں کی گئی ہے ۔



عینی شاہدین کے مطابق فائرنگ ایک طرف سے نہیں ہوئی بلکہ کئی طرفہ تھی ۔ ایک ٹیکسی ڈرائیور کا بیان بھی موجود ہے ۔ اس خاتون ڈرائیور کے مطابق وہ فائرنگ کے وقت ٹیکسی لین میں تھی اور اس نے دیکھا کہ فائرنگ کئی طرفہ ہے۔ اس نے واقعے کی وڈیو بھی بنائی ہے۔ اس تمام تفصیل کے بعد یہ سوال ابھرتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ امریکی حکومت اس واقعے کے حقائق نائن الیون کی طرح چھپا رہی ہے اور تبدیل کرکے ایسی تصویر پیش کررہی ہے جس کا کچھ اور مطلب ہے۔ہر واقعے کی ڈرامائی تشکیل کے مقاصد ہوتے ہیں ۔ جس طرح نائن الیون کے بعد پوری دنیا کو تبدیل کردیا گیا اور اب دنیا کو سیکورٹی کے نام پر عملاً قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اسی طرح ان واقعات کا مقصد امریکی شہریوں میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنا اور ان کے پاس موجود شہری آزادیوں کو مزید محدود کرنا ہے ۔ امریکا میں کسی بھی قسم کے آپریشن سے قبل عوام کے پاس موجود ہتھیاروں کو واپس لینا ایک اہم ترین مرحلہ ہے ۔ اس کے لیے فضا تیار کی جارہی ہے ۔
یہ نیو ورلڈ آرڈر کے سازش کاروں کا طریقہ کار ہے کہ شکار سے قبل وہ شکار کے دانت اور ناخن سب نکال لیتے ہیں اور جب شکار نہتا ہوجاتا ہے تو اس پر چاروں طرف سے ٹوٹ پڑتے ہیں اور اپنی بہادری کا رعب جھاڑتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی امریکا اور یورپ میں بھی ہونے جارہا ہے ۔ نیو ورلڈ آرڈر صرف ایشیا و افریقا کے لیے نہیں ہے یا صرف اس کا شکار مسلمان ہی نہیں ہیں۔ یہ پوری دنیا پر شیطان کے تسلط کی داستان ہے۔ اس کے لیے امریکی اور یورپی بھی وہی حیثیت رکھتے ہیں جو ایشیائی اور مسلمان ۔ امریکا میں ایک شہری پر قدغن لگانے کی تمام تر قانون سازی مکمل ہے مگر اس کے اطلاق سے قبل کسی بھی قسم کی ممکنہ عوامی مزاحمت کا خاتمہ ضروری ہے۔ اس عوامی مزاحمت کا مظاہرہ امریکا میں کئی مرتبہ ہوچکا ہے اور امریکی فوج تک کو پسپا ہونا پڑا ہے۔ لاس ویگاس بھی امریکی عوام کو نہتا کرنے کی ایک کڑی ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش۔