جبری گمشدگیوں کا سلسلہ کب رکے گا

278

جبری گمشدگیاں یا افراد کا لاپتا ہوجانا کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ نہایت سنگین معاملہ ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں نہ تو کوئی ادارہ ہے جو اس معاملے کو سنگین نوعیت کا معاملہ سمجھتا ہو اور نہ ہی حکومت سمجھتی ہے کہ اس سلسلے میں اس کی کوئی ذمے داری بنتی ہے۔ اگر کسی قسم کی قانون سازی کرنا ہے تو وہ وقت ضائع کیے بغیر کی جائے۔
کسی گھر کا کوئی فرد اگر مرجائے تو لواحقین کو آخرکار صبر آجایا کرتا ہے لیکن جس گھر کا کوئی فرد اٹھا لیا جائے، گم شدہ ہوجائے یا غائب کردیا جائے تواس کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے کہ وہ کس حال میں ہے، کہاں ہے اور کس کی گرفت میں ہے۔
سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس سلسلے میں بہت پراسرار طریقے سے کام لیتے ہیں۔ اس طرح کی کارروائی کے لیے عموماً ذاتی گاڑیاں استعمال میں لائی جاتی ہیں، لباس بھی سرکاری نہیں ہوتے اور جن افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے ان کے لواحقین کو گرفتاری سے قبل یا گرفتاری کے بعد کسی قسم کی کوئی اطلاع بھی نہیں دی جاتی کہ ان کے گھرکا فرد کن کی ’’محافظت‘‘ میں ہے جس سے کسی بھی فرد وبشر کو اس بات کا علم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کا لخت جگر، بھائی، شوہر یا بیٹا کہاں اور کس حال میں ہے۔
جب قانون نافذ کرنے والے اس قسم کی وادات چوروں اور اغوا کاروں کی طرح کرتے ہیں تو جو واقعی چور یا اغوا کار ہوتے ہوں گے وہ بھی اس کا فائدہ اٹھاکر کیا کچھ نہیں کرلیتے ہوں گے اور دیکھنے والے یہی سمجھ کر خاموش رہ جاتے ہوں گے کہ ایساکرنے والے ’’قانون کے محافظ‘‘ ہی ہوں گے۔
ان سب سے بڑھ کر قابل تشویش بات یہ ہے کہ زیادہ تر ایسے افراد مردہ حالت میں کسی ندی، نالے، جھاڑیوں یا سرد خانوں سے مل جاتے ہیں۔ مردہ حالت میں مل جانا کچھ اتنے معمول کی بات ہو گئی ہے کہ جیسے یہ کوئی قابل گرفت جرم ہی نہیں اور یہی وہ بات ہے جس کو دنیا بہت سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ چناں چہ پاکستان میں انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ علی نواز چوہان نے کہا ہے کہ جبری گم شدگیوں کے معاملے میں پاکستان میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ ہے۔ بی بی سی کو جبری طور پر گم شدہ افراد کے بارے میں دیے گئے انٹرویو میں قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے کہا کہ پاکستان میں جبری طور پر گم شدہ ہونے والے لوگوں کے بارے میں کوئی قانون نہیں ہے اور نہ ہی پاکستان نے اس بارے میں بین الاقومی معاہدوں کی توثیق کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے‘‘۔ لاپتا افراد کی تلاش کے لیے حکومتوں کی طرف سے تعاون کے بارے میں انہوں نے کہا کہ حکومتیں تعاون تو کرتی ہیں لیکن سب لوگ شاید نہیں کرتے۔ ’’یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارے لوگ تعاون کرتے ہیں حکومت کے اندر؟ کیا وہ لوگ تعاون کرتے ہیں جو شاید ذمے دار ہوں (گمشدگیوں کے) یا باغی (روگ) عناصر ہوں، سارے تو ایسے نہیں ہیں۔‘‘ اندزاہ لگائیں کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے سرکاری ادارے کے سربراہ جسٹس چوہان کیا فرما رہے ہیں ’’قانون کی عدم موجودگی کے باعث گم شدہ افراد کے مقدمات کی تفتیش کرنے میں ان کا ادارہ بعض اوقات بے بس ہو جاتا ہے۔‘‘ قانون نہ ہونے کی وجہ سے ان افراد کی کسی ایجنسی کی تحویل میں ہونے کی تصدیق کا کوئی طریقہ کار نہیں ہے۔ اگر یہ طریقہ کار بن جائے تو ایجنسیوں یا پولیس میں جو (پالیسیوں سے) باغی عناصر ہیں ان کا احتساب ہو سکے گا اور وہ قانون کے مطابق چلیں گے۔اس سوال پر کہ جب تک ایجنسیاں، جن پر الزام ہے کہ انہوں نے کسی شخص کو غیر قانونی حراست میں رکھا ہوا ہے، انسانی حقوق کمیشن کے ساتھ تعاون نہیں کرتیں تو یہ ادارہ کچھ نہیں کر سکے گا، جسٹس چوہان نے کہا کہ یہ تاثر کلی طور پر درست نہیں ہے۔ ’’کچھ تو ہم کر سکتے ہیں۔ جیسے دباؤ ڈال سکتے ہیں، شور مچا سکتے ہیں اور ایجنسیوں کو بلا بھی لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ان سے کچھ حاصل ہو جائے‘‘۔
اندازہ لگائیے کہ اس جملے یا اس جواب میں کتنی بے بسی کا اظہار ہو رہا ہے یعنی کسی بھی حکومت کی زیادہ سے زیادہ کارروائی بس اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ جلسے کرے، جلوس نکالے، چیخے چلائے اور سراپا احتجاج بن جائے اور اگر اس سے بھی آگے قدم اٹھائے تو وہ یہ کہ کسی ادارے کے ذمے دار فرد کو بلاکر اس سے ہاتھ جوڑ کر کہے کہ خداکے لیے سچ سچ بتادو اور اگر وہ انکار کردے تو معاملہ اللہ پر چھوڑکر خاموشی اختیار کرلے جو اب تک ہوتا چلا آیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ اگر ایجنسیاں جبری گم شدہ افراد کے بارے میں رضا کارانہ معلومات نہیں دیتیں تو ان کا ادارہ کچھ نہیں کر سکتا، تو انہوں نے اس رائے سے اتفاق کرتے ہوئے کیا کہا ذرا ملاحظہ کیجیے ’’بہت حد تک آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اگر ایجنسیاں رضا کارانہ طور پر ہمیں یہ نہ بتائیں کہ کوئی گم شدہ شخص ان کے پاس موجود ہے تو ہمارے پاس تو کوئی طریقہ نہیں ہے جس سے ہم یہ معلوم کر سکیں کہ یہ فرد کہاں ہے‘‘۔ اس معاملے میں پولیس کے کردار کے بارے میں انہوں نے کہا کہ پولیس اتنی طاقتور نہیں ہے کہ وہ اس معاملے میں کچھ کر سکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ یہ تو پھر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا معاملہ ہو گیا تو جسٹس چوہاں نے کہا کہ کچھ ایسا ہی ہے نیز یہ کہ ’’میں اس سے انکار نہیں کروں گا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا معاملہ تو ہے۔ لیکن یہیں پر قانون کا معاملہ آ جاتا ہے۔ اگر قانون میں اختیار اور طاقت دی جائے تو معاملات بہتر ہو سکتے ہیں‘‘۔ اس بارے میں نئے قوانین بنائے اور ایجنسیوں اور پولیس کو ان قوانین کے دائرے میں لائے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ’’اس (قانون نہ ہونے) کی وجہ سے ہم حکومت کے مرہون منت ہیں کیوں کہ ہمارے پاس اپنی تو کوئی ایجنسی نہیں ہے جس سے ہم ڈھونڈھ سکیں کہ گم شدہ فرد کہاں ہے‘‘۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستان میں کسی بھی فرد کو اٹھالیا جانا، اس کو پاکستان کی کسی بھی عدالت میں پیش نہ کرنا، اس پر کوئی مقدمہ نہ چلانا، اس پر کوئی جرم ثابت نہ کرنا اتنا عام ہو گیا ہے کہ پاکستان کا شاید ہی کوئی محلہ ایسا رہ گیا ہو جہاں سے کوئی فرد اٹھایا نہیں گیا ہو۔ جو فرد اٹھالیا جاتا ہے وہ یا تو ملتا ہی نہیں یا پھر مردہ حالت میں ملتا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں، ممکن ہے کہ ایسا کرنے والے یا ایساکرنے والا کوئی ادارہ دنیا کے کسی قانون کی گرفت میں نہیں آسکے لیکن وہ اللہ کے یہاں کسی بھی طرح گرفت سے نہیں بچ سکے گا۔
دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ شدت سے ہوتا ہو لیکن کسی ملک میں کوئی غلط یا گمراہ کن کام ہمارے لیے ’’جائز‘‘ کا جواز نہیں بن سکتا اور اس صورت میں جب کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہو اور اس کا نام بھی ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہو یہ بات کہیں سے کہیں تک بھی قابل ستائش اور لائق تحسین ہو ہی نہیں سکتی اس لیے کہ اسلام جان لینا تو در کنار کسی کو حبس بے جا تک میں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ہماری عدالتوں کا طریقہ کار بہت پیچیدہ ہے اور عام طور پر بڑے بڑے سنگین جرائم میں ملوث افراد قانونی پیچیدگیوں کے سبب عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی ادارہ از خود خود مختار بن کر کسی کو سفر آخرت پر روانہ کردے۔ نظام کو تبدیل کیا جائے، قانونی نوک پلک کو درست کیا جائے لیکن ان سب باتوں کو جواز بنا کر قتل کردینے کا لائسنس حاصل کرلینا ملک کی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہو سکتا ہے۔

Urdu Home