منشیات کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ

325

افغانستان سے ان کے وزیر برائے انسداد منشیات اطلاع دے رہے ہیں کہ اس سال افغانستان میں افیون کی پیداوار میں 64 فی صد ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس کی وجہ وہ ملک کے عدم استحکام کی صورت حال پر ڈالتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ طالبان اور دیگر شدت پسند گروہوں نے انتظامیہ کو عدم استحکام کا شکار کرکے مزید زمین ہتھیالی ہے، بڑا گھما پھرا کر بات کی گئی ہے ورنہ مختصر یہ کہ افغان حکومت مزید سکڑ گئی ہے اور طالبان نے اپنی زیر قبضہ علاقوں میں مزید اضافہ کرلیا ہے۔ لیکن منشیات کی پیداوار میں اضافہ کا اس سے کیا تعلق ہے۔ کیوں کہ طالبان نے تو اپنے دور حکومت میں افیون کی پیداوار میں انتہائی کمی کی تھی۔ اور یہ اُن کی ایک بڑی کامیابی تھی آج بھی اس بارے میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔ کہ جب سے امریکا نے افغانستان پر قبضہ کیا تو اس کے بعد سے افیون کی پیداوار میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا۔
امریکی اہل کار کہتے ہیں کہ ہتھیاروں کی رقوم اور دیگر اعانت کے عوض طالبان اسمگلروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کی 90 فی صد منشیات افغانستان میں پیدا ہورہی ہے۔ آخر امریکا بہادر اس کو روکنے میں کامیاب کیوں نہیں ہوسکا۔ وجہ یہی ہے کہ وہ مالی طور پر اس پُرکشش دھندے کو روکنا ہی نہیں چاہتا۔ نہ ہی اس کو روکنا اس کے بس میں ہے۔ اقوام متحدہ کا اینٹی نارکوٹک بورڈ اور انسداد جرائم کے ادارے کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں منشیات رشوت ستانی اور بدعنوانیوں کو رواج دینے میں مغربی ملکوں اور مغرب کی غیر سرکاری تنظیموں اور این جی اوز کا کردار سب سے بڑا ہے۔ افغانستان کے 54 فی صد عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ صرف مغربی ممالک اور مغربی این جی اوز ہی ملک میں بدعنوانیوں کو رواج دینے کے ذمے دار ہیں کیوں کہ انہیں صرف اپنی جیبوں اور اپنے فائدے کی فکر ہے۔ ’’سب سے پہلے اپنا فائدہ‘‘ بلکہ ’’سب کا سب اپنا فائدہ‘‘ امریکا کا اصول رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے پردے میں امریکا کا اصل ہدف سینٹرل ایشیا کے قدرتی ذخائر تک پہنچنا تھا۔ اس کے لیے اس کا منصوبہ طالبان کے زیر تسلط علاقوں خو استعمال کرنا تھا۔ لہٰذا طالبان نے جب 1996ء میں 2 سال کے مختصر عرصے میں افغانستان کے 90 فی صد علاقے پر قبضہ کرلیا تو امریکا نے اس پر ذرا تشویش کا اظہار نہ کیا بلکہ خوشی کے ساتھ اُن کا خیر مقدم کیا۔ اس مختصر عرصے کے دوران طالبان نے جنگ سے دہکتے افغانستان میں امن وامان قائم کیا، لوٹ مار اور چوری کا خاتمہ کیا، منشیات کی تجارت اور پیداوار پر مکمل پابندی لگائی، اسلامی قوانین کے تحت انصاف فراہم کیا، یہ سب کرنے کے لیے طالبان کے پاس نہ ٹیکنالوجی تھی، نہ مال و زر اور اسلحے کے انبار ان کی یہ حیرت انگیز کامیابی کی وجہ ان کا اخلاقی اور دینی اعتبار سے بلند معیار اور ان کی نیک نیتی اور بے لوثی تھی۔



لیکن جب طالبان نے امریکی ہاتھوں میں کٹ پتلی بننے سے انکار کیا اور اسامہ بن لادن جو سعودی حکومت کا باغی تھا اس کی پشت پناہی کی تو امریکا طالبان سے بدظن ہوگیا۔ بس اب کیا تھا۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے اُن کے خلاف زبردست مہم شروع کی، ان کے شرعی قوانین کے نفاذ کو عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیا۔ طالبان کے عرب مہمان اسامہ بن لادن کو امریکا نے دہشت گرد قرار دے کر ان سے مطالبہ کیا کہ اُسے فوری طور پر امریکا کے حوالے کیا جائے لیکن طالبان نے اس مطالبے کو یکسر مسترد کردیا اور الزامات کو سچ ماننے سے انکار کرتے ہوئے امریکا سے ثبوت فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ امریکا نے ثبوت فراہم کرنے کے بجائے 7 اکتوبر 2001ء میں افغانستان پر اپنی بھرپور فضائی قوت کے ساتھ حملہ کردیا۔ ہفتوں ہزاروں ٹن بارود اور کیمیائی مواد افغانستان پر پھینکا جاتا رہا۔ امریکا اب اپنے چوالیس ممالک کی افواج کے ساتھ کابل میں اُترا اُسے یقین تھا کہ طالبان کی فوجی قوت ختم کردی گئی ہے۔ لیکن سوچ محض چند سال کے اندر غلط ثابت ہوئی۔ امریکی فوجی اداروں کے سربراہ اور تھینک ٹینک کے دانش ور خود ہی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔ امریکا نے اپنی شکست کے آثار کو دھندلانے کے لیے ڈالر کی قوت کے ساتھ طالبان سے مذاکرات کی کوششیں شروع کیں لیکن بارود کی طاقت کی طرح ڈالر کی طاقت بھی شکست کے آثار اور رفتار کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔
افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں اضافے کی خبر پاکستان کے لیے بھی سرخ بتی یعنی خطرے کے نشان کی حیثیت رکھتی ہے، کیوں کہ افغانستان سے سالانہ تیس ارب ڈالر کی منشیات پاکستان اسمگل کی جاتی ہے، اقوام متحدہ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس میں سے دو سو پچاس ٹن سے زائد منشیات پاکستان میں استعمال کی جاتی ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کے ساتھ ساتھ منشیات کے پھیلاؤ کا بھی سامنا ہے۔ ہماری وزارت خارجہ کو امریکی حکومت کے سامنے یہ اعداد و شمار بھی رکھنا چاہیے۔ افغانستان میں منشیات کی پیداوار میں ریکارڈ اضافہ امریکی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ افغانستان میں امریکی ناکامی صرف فوجی میدان ہی میں نہیں ہے۔ بلکہ وہ افیون کی کاشت روکنے جیسا معمولی کام بھی نہیں کرسکا ہے۔