قانون توہین رسالت کے خاتمے کی کوشش اور احتجاج

488

امریکا اور یورپ اس کوشش میں ہیں کہ پاکستان میں ہر قسم کی آزادی ہونی چاہیے، ایسی آزادی کہ لبرل ازم بھی کہہ اٹھے کہ بس کرو، امریکا اور یورپ، خصوصاً پاکستان کو امداد دینے والے ادارے یہ مطالبات دہراتے رہتے ہیں، پاکستان میں توہین رسالت کا قانون ختم کردیا جائے، اقلیتوں کے حقوق بحال کیے جائیں، ابھی چند روز قبل امریکا نے پھر یہ مطالبہ دہرایا ہے لیکن سمجھ میں نہیں آرہا کہ ایسے مطالبات کیوں کیے جارہے ہیں اورنہ کبھی پارلیمنٹ میں اس معاملے پر کوئی بحث ہوئی، سڑکیں اور ڈاک خانے بنانے والے ارکان پارلیمنٹ کے پاس وقت ہی نہیں کہ وہ ایسے سنجیدہ موضوع پر پارلیمنٹ میں اظہار خیال کر سکیں۔ ہفتہ دس روز ہو چکے ہیں کہ مولانا خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری گجراتی کی زیر قیادت فیض آباد راولپنڈی میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا جاری ہے انجمن تاجران اسلام آباد کے رہنماء کاشف چودھری نے بھی ان کے دھرنے کی حمایت کا اعلان کردیا ہے ممکن ہے اگلے مرحلے میں تاجر بھی اس احتجاج میں شریک ہوجائیں۔
حکومت اور دھرنا قیادت کے مابین اب تک مزاکرات کے چھ سات دور ہوچکے ہیں لیکن معاملہ حل نہیں ہو پارہا۔ دھرنے کے شرکاء کے مطالبات بڑے ہی واضح ہیں اور یہی مطالبات حکومت کو بھی پیش کیے گئے ہیں کہ انتخابی اصطلاحات کے بل میں حکومتی جماعت نے جس طرح دھوکا دہی سے حلف نامہ کی جگہ اقرار نامہ کر کے قادیانیوں کو مسلمانوں میں ووٹ درج کرانے کی راہ ہموار کی۔ آئندہ کے لیے اس کا تدارک کیا جائے۔ اس کے لیے سب سے آسان اور سمجھ میں آنے والا راستہ یہ تھا کہ اس ترمیم کو لانے کی تمام تر ذمے داری وفاقی وزارتِ قانون کی تھی۔ ترمیمی بل کا انہوں نے ڈرافٹ تیار کیا غلطی، کوتاہی اور غفلت ہوئی یا گھپلا ہوا، سارے نشان انہی کی جانب جارہے ہیں اب تمام تر ذمے داری بھی حکومت کی ہے کہ وہ آگے بڑھے اور معاملہ حل کرے۔ مسلم لیگ (ن) کے جناح کنونشن میں بھی، جب نواز شریف کو دوبارہ مسلم لیگ کا صدر منتخب کیا گیا، اس محفل میں وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف بر ملا مطالبہ کیا کہ کوتاہی کا جو بھی ذمے دار ہے اسے نکال باہر کیا جائے لہٰذا اس مطالبے کو لبیک تحریک کا مطالبہ کہنا درست نہیں بلکہ وزیراعلیٰ شہباز شریف خود مطالبہ کر چکے ہیں کہ ذمے دار کا تعین کر کے اسے وزارت سے نکالا جائے۔ اس بات کی تحقیق کے لیے ایک کمیٹی بنی، سینیٹ میں قائد ایوان راجا ظفر الحق اس کمیٹی کے سربراہ بنائے گئے لیکن ابھی تک کنویں میں چالیس ڈول پانی نکلانے کے باوجود بھی مسئلہ جوں کا توں ہے کمیٹی تو بنی، لیکن نہ اس کا نتیجہ سامنے آیا نہ ملزم کو سزا ملی۔ یہ بات اب ریکارڈ کا حصہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون نے جس این جی او کے کہنے پر بیرونی آقاؤں کی آشیرباد سے کھیل کھلا وہ بلاوجہ نہیں اس کے پس منظر میں خوفناک ارادوں اور سازشوں کے ساتھ اسلام دشمن قوتیں گھات لگائے بیٹھی تھیں۔ اگر ان کی مراد برآتی تو اس کے جو خوفناک اور تباہ کن اثرات ہوتے، کاش کہ حکمران اس کا شعوری طور پر ادراک رکھتے تو ذمے داروں کو سزا دینے میں تاخیر نہ کرتے۔
امریکی تھنک ٹینک بھی توہین رسالت کے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور کرتے چلے آرہے ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں انتخابی اصلاحات کے وقت قانون سازی میں کس نے اور کس کے کہنے پر حلف کے الفاظ تبدیل کیے اگر ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے موقع ایسے آئے ہیں کہ جب اس طرح کے مطالبات نے زور پکڑا تھا اس لیے یہ کہنا کہ کسی نے غلطی سے کردیا یہ موقف تسلیم نہیں کیا جاسکتا ترمیم کا یہ کیس اتنا سادہ نہیں جتنا اسے سمجھا جا رہا ہے۔ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف حکومت کی آمرانہ سوچ اور ملعونانہ فکر نے انتخابی اصطلاحات کی دفعہ نمبر 7 کی شق ’’بی‘‘ اور ’’سی‘‘ کو حذف کرنا چاہا لیکن اس وقت بھی دینی قوتوں نے راہ میں دیوار کھڑی کی تھی مولانا فضل الرحمن نے اے پی سی کا اجلاس طلب کیا تھا اور وارننگ دی تھی جس کے نتیجے میں حکومت دوبارہ مسلم، غیر مسلم کی ووٹر لسٹیں علیحدہ علیحدہ بنانے کا اعلان کرنے پر مجبور ہوئی تھی۔ قاف لیگ کی حکومت میں بھی وہی کابینہ میں تھے جو آج مسلم لیگ کے ساتھ ہیں، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کو گرفتار کرنے کے لیے تین نومبر کی جنرل پرویز مشرف کی ایمرجنسی کے لیے ڈرافٹ بھی زاہد حامد ہی نے تیار کیا تھا۔ زاہد حامد قاف لیگ کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بھی وزیر قانون ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے والی ہے کہ 2008ء اور 2013ء کے الیکشن سے پہلے دفعہ نمبر7 کی دونوں شقوں کو اڑا دیا گیا تھا اب موجودہ ترمیم کے ذریعے ان کے نشان کو بھی ان قوانین کی منسوخی کے ذریعے مٹایا جارہا تھا تاہم احتجاج کے نتیجے میں اب حکومت نے ترمیم واپس لی۔ دفعہ نمبر 7 کی شقوں کو بحال کرنے کا اعلان کیا۔ سینیٹر راجا ظفرالحق نے مژدہ سنایا کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ان کی بحالی کو عملی جامہ پہنایا جائے گا کابینہ نے اس قانون کی منظوری دے دی ہے۔ گزشتہ ہفتے امکان تھا کہ یہ قانون اسمبلی سے منظور کرالیا جاتا لیکن قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہوگیا کہ وہ ترمیم بھی زیربحث لاکر منظور نہ ہوپائی اب اگلے ہفتے اجلاس بلایا جارہا ہے جس میں یہ قانون منظور کرلیا جائے گا۔
اصل سوال تو یہ ہے کہ وفاقی وزیر قانون کو کابینہ میں برقرار رکھنا کیوں ضروری ہے؟ لیکن اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے رہا اور تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ بھی منظر پر نہیں لائی جارہی جب صورت حال ہی ایسی بن جائے تو پھر دینی قوتوں کے سامنے سوائے اس کے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ جاتا کہ وہ احتجاج کریں اسی لیے یہ جماعتیں پورے مُلک میں صدائے احتجاج بلند کر رہی ہیں اخبارات میں مطالبات کیے جا رہے ہیں، لیکن قوت مقتدرہ جان بوجھ کر اسے معرض التواء میں ڈال کر عمداً تاخیری حربوں سے اسے ٹھنڈا کرنے کے درپے ہے۔غالباً اس پُر امن جدوجہد کو نظرانداز کرنے کے خطرناک نتائج کا حکومت ادراک نہیں کر رہی حکومت کو فوری ادراک کرنا چاہیے حکومت کا فرض ہے کہ وہ دفعہ نمبر 7 کی شقوں کو بحال کرنے کے عملی اقدام سے اپنی پوزیشن واضح کرے۔