مسائل سے نجات مگر کیسے؟

333

پاکستان کا شروع دن سے یہی المیہ رہا ہے کہ یہاں ہمیشہ ترجیحات کو نظر انداز کیا گیا ہے اور کبھی سنجیدگی سے غربت مہنگائی انصاف تعلیم معاشرتی اقدار بے روزگاری اور مساوات جیسے عوامی مسائل پر کم ہی توجہ دی جاتی رہی ہے۔ تعلیم کا بجٹ قوم کے ساتھ نہ صرف مذاق کے مترادف ہے بلکہ اشرافیہ اور عوامیہ کے درمیان فرق قائم رکھنے کی بھونڈی اور بھیانک سازش ہے۔ تعلیم کا بجٹ اس لیے نہیں بڑھایا جاتا کہ غریب کا بچہ کسی بڑے سیاست دان بیوروکریٹ یا سرمایہ دار کے بچے کے ساتھ بیٹھ کر تعلیم نہ حاصل کرنے لگے اور اس کا ٹیلنٹ اشرافیہ کو کھلنے لگے اسی طرح غربت مٹانے کے بجائے غربت میں اضافے کے اقدامات کیے جاتے رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ خطِ غربت سے نیچے بسنے والے مجبور و محکوم عوام کی تعداد میں سال بہ سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے، بے روزگاری کا یہ عالم ہے کہ سولہ سال کی محنت شاقہ کے بعد ڈاکٹری اور انجینئرنگ کی ڈگری لے کر نکلنے والے طالب علم کو دس پندرہ ہزار کی نوکری بھی دستیاب نہیں ہوتی۔ جس ملک میں آٹا پچاس روپے کلو اور چاول سو روپے کلو فروخت ہو رہا ہو اس ملک میں فقیروں کی آبادی کو بڑھنے سے کون روک سکتا ہے۔ بلکتے بہن بھائیوں اور بوڑھے اور بیمار والدین کی سسکیوں کو کون نوجوان برداشت کر سکتا ہے۔ پھر امن و امان کے لیے جانوروں کے نام پر فورس بنانے سے امن کے خواب دیکھنا کسی خبط الحواس وزیر اعلیٰ ہی کا کام ہو سکتا ہے، ترقی کے نام پر قوم کے کھربوں روپے ڈکار جانے والے حکمران قوم کو کیا دے سکتے ہیں بڑی رد و کد کے بعد چند پل ، سڑکوں کی استر کاری ، دو چار انڈر پاسز بنا دینا ترقی کا استعارہ نہیں مانا جا سکتا۔ ٹرانسپورٹ کی بد ترین مثال یہ ہے کہ شارع فیصل جو کراچی کی بڑی شاہراہ ہے پر کوئی سرکاری بس دستیاب نہیں، اکثر روٹ بند ہو چکے ہیں۔ نعمت اللہ خان کے دور نظامت میں گرین بسوں کا شہریوں کو تحفہ دیا گیا تھا مگر ان کے جانے کے بعد ہی ان بسوں کا صفایا ہو گیا اور اب پھر کراچی کو مزدا مافیا کے حوالے کر دیا گیا لوکل ٹرینیں چالیس سال سے بند ہیں سرکلر ٹرین کا ذکر آتے ہی احساس ہونے لگتا ہے یہاں نہ کوئی صوبائی حکومت ہے نہ اس میٹروپولیٹن شہر میں کوئی مئیر ہے، نہ کوئی لوکل باڈی ہے، نہ ریلوے ہے، نہ کوئی اور ذمے دار ادارہ ہے جو سرکلر ٹرین کو چلانے کی ہمت کر سکے۔ کراچی کے نام پر سیاست کرنے والوں کے کانوں پر آج تک جوں نہ رینگی اور تین کروڑ کی آبادی کے دنیا کے چند بڑے شہروں میں شمار ہونے والے شہر میں ٹرانسپورٹ کے نام پر عوام کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ کم و بیش یہی صورت حال پنجاب کی بس سروس کا بھی ہے جہاں مردوں کے ساتھ خواتین کو بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے مگر شرم کسی کو نہیں آتی۔ جنگلہ بس سروس یا میٹرو ٹرین مسائل کا حل نہیں جس کے نام پر اسی قوم کو مقروض کیا جا رہا ہے لیکن سیاست دان بڑی بے شرمی سے اس کو اپنی کامیابی قرار دیتے نہیں تھکتے جو سبسڈری ان بسوں اور ٹرینوں پر حکومت پنجاب دے رہی ہے کیا وہ عوام کی جب پر بوجھ ڈالے بغیر ادا کر سکتی ہے۔ پنجاب میں قوم کی بیٹیاں فٹ پاتھوں ہسپتالوں کے دروازوں اور سڑکوں پر بچوں کو جنم دے رہی ہیں، مگر بے حس حکمرانوں کو اس کی بھی کوئی پروا نہیں۔ بیس کروڑ باسیوں کے ڈھائی کروڑ نونہال اسکول کی شکل تک دیکھنے سے قاصر ہیں پھر پاکستان کو ایشیا کا ٹائیگر بنانے کی باتیں کرنے والوں کو اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ تھر کے باسیوں کے لیے فراہم کردہ خیراتی گندم، دوا اور معصوم بچوں کے لیے بین الاقوامی امداد اور ملکی سطح پر مخیر حضرات کی طرف سے دیے گئے عطیات کو لٹیرے سندھ کے حکمراں بیچ ہی سے اچک لے جاتے ہیں
اور مارکیٹ میں فروخت کر دیتے ہیں اور گندم بھی ان بھوکوں تک نہیں پہنچنے دیتے چاہے پڑی پڑی وہ سڑ ہی کیوں نہ جائے۔ جس ملک میں سرکاری اسکول اور سرکاری ہسپتال غریب کے لیے گالی بن جائیں اور یونیورسٹیاں گرانٹ یعنی خیرات پر چل رہی ہوں وہاں نہ کسی کا علاج باوقار طریقے سے ہو سکتا ہے اور نہ تعلیم باوقار طریقے سے دی جا سکتی ہے۔ چالیس سال سے سندھ پر حکمرانی کرنے والی پیپلز پارٹی نے پورے سندھ میں ایک بھی بڑا ہسپتال قائم نہیں ہونے دیا۔ سندھ کی حکمران جماعت بشمول دیگر اتحادیوں کے نیب کی قبر سندھ اسمبلی میں کھودنے کی تیاری کر رہی ہو اس کے بعد اور کسی ثبوت کی ضرورت ہے کہ وہ پوری حکومت بشمول تمام اسٹیک ہولڈرز اور سیاسی پشتیبانوں کے سندھ کا سارا بجٹ ہڑپ کر رہی ہے اور عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے چند ایک نمائشی کام کر کے تسلی دینے کی کوشش کرتی ہو کہ ہم تمہاری ترقی کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اس مختصر کالم میں سارے مسائل اور حکمرانوں کی کارستانیوں کا احاطہ ممکن نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک اس ملک پر انگریز کے پروردہ حکمران چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہوں سے نجات حاصل نہیں کر لی جاتی پاکستان کبھی ان ترجیحات کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھ سکتا۔ پاکستان کے مسائل کا واحد حل اسلامی نظام کے عملی نفاذ میں مضمر ہے۔