عمران خان۔۔۔ سیاست کا پی ٹی آئی 

390

ہم سب نے اسکولوں میں پڑھا ہے اور سب جانتے ہیں کہ ہر اسکول میں ایک PTI ہوا کرتا تھا جس کا کام طلبہ کو جسمانی طور پر چاق و چوبند رکھنا اور ان کی جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لیے متحرک رکھنا ہوتا تھا اس کے لیے ہر اسکول میں ایک پریڈ بھی مختص ہوا کرتا تھا جو Physical Training Instructor کہلاتا تھا جس کو بچے پی ٹی آئی کہا کرتے تھے۔ عمران خان کا تعلق بھی چوں کہ اسپورٹس کے شعبے سے ہے اور وہ ایک مایہ ناز کرکٹر بھی رہے ہیں ان کی سیاسی جماعت کا نام بھی پی ٹی آئی رکھا گیا ہے۔ بقول عمران کے ان کی جماعت اکیس سال سے جدو جہد کر رہی ہے اکیس سال کے دوران جتنے بھی الیکشن ہوئے موصوف واحد نشست ہی قومی اسمبلی میں جیت پاتے تھے لیکن اچانک مشرف کے آخری دور میں ان کے کل پرزے نکلتے نظر آئے۔2008ء کے الیکشن میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی ان کے حصے میں نہیں آئی پھر ان پر کسی کی نظر کرم پڑی اور وہ بڑے بڑے جلسے کرنے لگے لوگ کہیں سے جوق درجوق ان کے جلسوں کو رونق بخشنے لگے اور وہاں کے جو مناظر ہیں وہ سیاست کی ڈکشنری میں تو محفوظ ہو ہی چکے ہیں جن سے جان چھڑانا عمران خان کے لیے ایک دشووا ر گزار وادی سے گزرنے کے مترادف ہوگا۔ عمران نظام انصاف کو ٹھیک کرنے کی جد و جہد کرنے کے بجائے سیاسی مخالفین کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ گئے اور کسی کی نظر کرم بلکہ اشارے پر سیاست میں ایسا لاٹھی چارج کیا کہ بڑے بڑے اپنی پگڑیا بچانے لگے۔ ان کی لاٹھی نے خود پی ٹی آئی میں بہت سوں کے سر پھوڑ دیے کہ لوگ اپنا سر بچانے کے لیے سہارے ڈھونڈنے لگے، سیاستدان اپنی دستار کی خیر منانے لگے ہر انسان اچھائی اور برائی کا مجوعہ ہوتا ہے ہر ایک کی سوچ اور نظریہ مختلف ہوتا ہے ہر ایک کا سیاسی کردار مختلف ہو سکتا ہے لیکن ان تمام اختلافات پر انگلی اٹھانے سے قبل یہ سوچنا چاہیے کہ اگر ہم کسی کی طرف ایک انگلی سے اشارہ کرتے ہیں تو تین انگلیاں ہماری طرف بھی یہ اشارہ کر رہی ہوتی ہیں۔
ہر جماعت کا اپنا اپنا پورا منشور ہوتا ہے اور ملک کو کس ڈگر پر چلانا ہے اس کا پورا چارٹر اس کے پاس موجود ہوتا ہے۔کیا پورے پاکستان میں صرف اور صرف انصاف کا ہی کال پڑا ہوا ہے جس کے حصول کے لیے ایک پوری جماعت تشکیل دے دی جائے اس طرح تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ مقتدر حلقے قوم کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں۔ تعلیم کا یہ حال ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں بیسیوں قسم کے نصاب پڑھائے جا رہے ہیں پھر جب یہ مختلف النوع قسم کے نصاب پڑھ کر عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو ہر ادارے میں مختلف اذہان کے افراد بھرتی ہونے لگتے ہیں جن میں کسی بھی طرح کی کوئی چیز ہم آہنگ نہیں ہوتی پھر مجوعی طور پر قوم بیسیوں طبقات میں بٹ چکی ہوتی ہے۔ کسی میں جرات نہیں کہ وہ اپنے طور پر اقتصادی پالیسی بنا سکے ہر حکومت بیرونی ساہوکاروں سے بھاری شرح سود پر قرضے حاصل کرنا ہی اپنا مطمح نظر اور سیاسی کامیابی سمجھنے لگتی ہے۔ میڈیا پالیسی سب کے سامنے ہے میڈیا کو قابو کرنے کے لیے امریکی سینیٹ میں رقوم مختص کرنے کی قرار دادیں بھی پاس کرائی جا تی ہیں جن پر لا محالہ نجی چینل مالکان کی نظریں جمی ہوتی ہوں گی پھر جو جس کا کھاتا ہے اسی کا گاتا ہے کہ مصداق پالیسیا ں بھی ترتیب دی جا تی ہیں جن میں بنیادی طورپر اسلام، تحریک پاکستان، قائدین تحریک پاکستان‘ قائد اعظم محمد علی جناح‘ علامہ محمد اقبال‘ سید ابو الاعلیٰ مودودی سمیت ہر قابل احترام اور تعمیر پاکستان سے لیکر تکمیل پاکستان تک کے ہر ہر کردار کو ٹی وی اسکرین سے بے دخل کر کے قوم کو رہنمائی سے محروم کردیا گیا ہے۔
میڈیا کے ڈرامے دن رات عورتوں کو مردوں کے خلاف صف آراٗ کر رہے ہوں اور خاص طور پر شوہروں کو اس ذلت کے ساتھ پکارا جاتا ہو کہ کوئی مہذب گھرانہ اپنے نوکر کی بھی اس طرح بے توقیری کا تصور بھی نہ کر سکتا ہو شادی شدہ عورتوں کے غیر مردوں کے تعلقات کی دن رات ’’ تبلیغ ‘‘ کی جاتی ہو دفاتر میں خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہو اور گھر بے آباد ہو رہے ہوں تعلیمیافتہ نوجوانوں کی فوج کی فوج تیار ہو رہی ہو اور روزگار کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہو جائے‘ مہنگائی کا جن بے قابو ہو کر اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کو غربت کی لیکر سے نیچے دھکیل رہے ہوں‘ کار خانے بند ہو رہے ہوں۔پورے ملک میں نہ صاف پانی پینے کو دستیاب ہو نہ کوئی معقول ہسپتال دستیاب ہو‘ جان بچانے والی چالیس روپے کی گولی چودہ سو میں بیچی جا رہی ہو تو کون اس قوم کی مسیحائی کرے سرکاری ہسپتال اور سرکاری اسکول کے قریب سے بھی گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہو کہ کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا؟محلے کے پرائیویٹ اسکول میں بھی بچوں کو تعلیم دلانے کے قابل نہیں بڑے بڑے ادارے بد نیتی کی نظر ہو رہے ہوں اور وہ حکومتی خیرات کے منتظر نظر آتے ہوں تو ایسے میں صرف یک نکاتی ایجنڈے پر مشتمل کوئی سیاسی جماعت کس طرح قوم کی نجات دہندہ ہو سکتی ہے؟ ایسے میں تو عمران خان اسکول کے پی ٹی آئی کا کردار ہی ادا کرتے رہنا چاہیے۔