بیت المقدس ہی اسرائیل کا دارالحکومت کیوں؟ 

1082

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور یہاں پر امریکی سفارت خانے کی منتقلی کے احکامات کے بعد سے مسلم دنیا میں ایک نیا اضطراب پیدا ہوگیا ہے۔ مسلم عوام میں موجود بے چینی کی بناء پر ان ممالک کے سربراہان بھی دنیا دکھاوے کے لیے ہلنے جلنے پر مجبور ہوگئے ہیں اور دوڑ دھوپ بھی شروع کردی گئی ہے۔ امریکا اور یورپ میں بھی اس کے خلاف مظاہرے جاری ہیں۔ فلسطین میں شدید مزاحمت شروع ہوگئی ہے اور روز ہی شہداء کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ پورے ہی یورپ نے سفارت خانے کی منتقلی میں امریکا کا ساتھ دینے سے انکار کردیا ہے۔
آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ اسرائیل بیت المقدس کو ہر صورت میں ہی اپنا دارالحکومت قرار دینے پر مصر ہے اور اس کے لیے ہر خطرہ مول لینے پر تیار ہے۔ یہ وہ اہم ترین سوال ہے جس کا جواب ہمیں کہیں نظر نہیں آرہا۔ اگر اس سوال کا جواب بوجھ لیا جائے تو بہت سارے ابہام ختم ہوجائیں گے۔
بیت المقدس دنیا کے تینوں الہامی مذاہب میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم اس کی اہمیت عیسائیوں سے زیادہ مسلمانوں اور یہودیوں میں ہے۔ عیسائیوں کی صحت پر اس امر سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ مسجد اقصیٰ یہودیوں کے قبضے میں ہے یا مسلمانوں کے۔ انہیں بیت المقدس آنے اور اپنی عبادات کرنے کی بھرپور آزادی ہے۔ ان کے مذہبی مفادات کو بھی اسرائیل سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تاہم یہاں پر یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین تنازع ہے۔ اس تنازع کی اصل وجہ کو جاننے کے لیے مسجد اقصیٰ کی تفصیل پر تھوڑا سا غور کرتے ہیں۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ دنیا میں اللہ کی پہلی عبادت گاہ بیت اللہ ہے۔ دوسری عبادت گاہ مسجد اقصیٰ ہے۔ اس ارض مقدس کی طرف سب سے پہلے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بھتیجے سیدنا لوط علیہ السلام نے عراق سے بیت المقدس کی طرف ہجرت کی تھی۔ یہیں سے ابراہیم علیہ السلام ہدایت خداوندی کی تکمیل میں مکہ مکرمہ پہنچے جہاں پر آپ نے اپنے فرزند سیدنا اسمٰعیل علیہ السلام کے ساتھ مل کر بیت اللہ کی تعمیر نو کی۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے جن کا لقب اسرائیل تھا، بیت المقدس شہر کو آبادکیا اور یہاں پر ایک عبادت گاہ بھی قائم کی۔ مصریوں کی غلامی سے رہائی کے بعد جب بنی اسرائیل سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قیادت میں یروشلم پہنچے تو انہیں اللہ نے ہدایت کی کہ وہ عبادت کی مختلف رسوم ادا کرنے کے لیے خیمے کی شکل میں بنی اسرائیل کے لیے ایک عبادت گاہ بنائیں۔ روایت ہے کہ اس خیمے کی بناوٹ، اس کے ساز وسامان اور اس میں ادا کی جانے والی رسوم کی پوری تفصیل خود اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰؑ کو سمجھائی۔ تاریخ میں عبادت گاہ کے لیے تعمیرکردہ اس خیمے کا ذکر ’’خیمہ اجتماع‘‘، ’’مقدس‘‘، ’’مسکن‘‘ اور ’’شہادت کا خیمہ‘‘ کے مختلف ناموں سے کیا گیا ہے۔ ایک طویل عرصے کے بعد جب سیدنا داؤد علیہ السلام ایک مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھنے میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں ایک باقاعدہ عبادت گاہ تعمیر کرنے کی ہدایت ملی۔ انہوں نے مسجد اور شہر کی تجدید کی۔ سیدنا داؤدؑ نے اس مقصد کے لیے ایک کھلیان خریدا جو کوہ موریا پر واقع تھا اور تعمیر کے لیے ابتدائی تیاریاں شروع کر دیں۔ تاہم اپنی حیات میں وہ اس مرکز عبادت کو تعمیر نہ کر سکے اور اپنے فرزند سیدنا سلیمان علیہ السلام کو اس کی تعمیر کی وصیت کرتے ہوئے معبد کا تفصیلی نقشہ انہیں سمجھا کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سلیمانؑ نے اپنے والد کی وفات کے بعد اپنے دور حکومت میں اس نقشے کے مطابق مقررہ جگہ پر ایک شان دار عبادت گاہ تعمیر کرائی۔ اس عبادت گاہ کو یہودی ہیکل سلیمانی کے نام سے پکارتے ہیں۔ ہیکل کے لغوی معنی جثہ یا ڈھانچے کے ہیں تاہم اسے عبادت یا پرستش کی جگہ کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس عمارت سے متصل سیدنا سلیمان علیہ السلام کا محل بھی تھا۔ اسی محل میں وہ اپنا دربار کرتے تھے۔ یہیں پر جنات ملکہ سبا کا تخت لے کر آئے تھے۔ اپنی شان وشوکت اور جاہ وشکوہ کے لحاظ سے یہ عمارت عجائبات عالم میں شمار ہوتی تھی۔ اس کی بڑی بڑی محرابوں کی تعمیر کے لیے سلیمان علیہ السلام نے ان جنات سے بھی مدد لی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مطیع کر دیا تھا۔
بیت المقدس کو یورپی زبانوں میں یروشلم کہتے ہیں۔ ’’بیت المقدس‘‘ سے مراد وہ ’’مبارک گھر‘‘ یا ایسا گھر ہے جس کے ذریعے گناہو ں سے پاک ہوا جاتا ہے۔ پہلی صدی قبل مسیح میں جب رومیوں نے یروشلم پر قبضہ کیا تو انہوں نے اسے ایلیا کا نام دیا تھا۔ بیت المقدس پہاڑیوں پر آباد ہے اور انہی میں سے ایک پہاڑی کا نام کوہ صہیون ہے جس پر مسجد اقصٰی اور قبۃ الصخرہ واقع ہیں۔ کوہ صہیون کے نام پر ہی یہودیوں کی عالمی تحریک صہیونیت قائم کی گئی۔
سیدنا سلیمان علیہ السلام کے بعد سے ہیکل سلیمانی متعدد مرتبہ تباہ و برباد ہوئی۔ یہاں تک کہ اس کا نام و نشان بھی مٹادیا گیا۔ اس کی تنبیہ اللہ تعالیٰ نے خود کی تھی۔ یہودیوں کی اپنی روایات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی کہ ’اگر تم میری پیروی سے برگشتہ ہو جاؤ اور میرے احکام اور آئین کو جو میں نے تمہارے آگے رکھے ہیں، نہ مانو، بلکہ جا کر اور معبودوں کی عبادت کرنے اور ان کو سجدہ کرنے لگو تو میں اسرائیل کو اس ملک سے جو میں نے ان کو دیا ہے، کاٹ ڈالوں گا اور اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام کے لیے مقدس کیا ہے، اپنی نظر سے دور کر دوں گا اور اسرائیل سب قوموں میں ضرب المثل اور انگشت نما ہوگا اور اگرچہ یہ گھر ایسا ممتاز ہے تو بھی ہر ایک جو اس کے پاس سے گزرے گا، حیران ہوگا اور سسکتا رہے گا اور وہ کہیں گے کہ خداوند نے اس ملک اور اس گھر سے ایسا کیوں کیا؟‘
جلد ہی اللہ کی یہ تنبیہ درست ثابت ہوئی اور ہیکل سلیمانی اور بیت المقدس کو 586 قبل مسیح میں شاہ بابل (عراق) بخت نصر نے مسمار کر دیا تھا اور ایک لاکھ یہودیوں کو غلام بنا کر اپنے ساتھ عراق لے گیا۔ یہودی مؤرخ یوسیفس کہتا ہے کہ ’’ہیکل تعمیر کرنے کے چار سو ستر سال، چھ ماہ، اور دس دن بعد جلا دیا گیا تھا‘‘۔
یہ تھی ہیکل سلیمانی کی ایک مختصر تاریخ۔ مگر یہودیوں کی دلچسپی ہیکل سلیمانی سے صرف اتنی نہیں ہے کہ یہ ان کی اولین عبادت گاہ تھی۔ ان کی دلچسپی اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس پر گفتگو آئندہ کالم میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔