گٹر اُبل رہے ہیں

611

جس طرف دیکھو گٹر اُبل رہے ہیں۔
گھر میں، گلی میں، بازاروں میں، درباروں میں، سڑکوں پر اور چوراہوں میں ابل رہے ہیں۔ وہ کون سی جگہ ہے جہاں نہیں اُبل رہے؟۔ کسی نے کبھی سوچا کہ گٹر اُبلتے کیوں ہیں اور جب اُبلتے ہیں تو اُگلتے کیا ہیں؟۔ نہیں نا، اس لیے کہ ان کو اُبلتے دیکھ کر اپنے اُگلنے کو روکنے کے لیے منہ پر بروقت اگر کپڑا نہیں رکھ لیا جائے تو ہم وہ کچھ بھی اُگل دیں گے جو کچھ ہم ہضم بھی کر چکے ہوں۔
جواب بہت ہی آسان ہے اور وہ یہ ہے کہ جب گٹر وں کے معمول کے مطابق بہنے میں رکاوٹ حائل ہو جائے تو وہ کہیں نہ کہیں سے اُبل پڑتا ہے اور انسانوں کی چھپی ساری گندگی کو سڑکوں، گلیوں، درباروں، بازاروں، اور چوراہوں تک پھیلا دیتا ہے جس کو چھپا چھپا کر انسان یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بہت نفیس اور پاکباز ہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ بے چارے گٹر نہ تو خود معمول کے مطابق بہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کوئی بوری یا ’’توڑا‘‘ پھنسا کر معمول سے بہنے کی راہ میں رکاوٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔ کیوں کہ وہ بہہ تو ضرور رہے ہیں مگران سب اٹکھیلیوں سے سو فی صد بے بہرہ ہیں۔ وہ معمول کے مطابق بہہ رہے ہیں تو بھی یہ انسانوں کا احسان ہے اور اگر راہیں مسدود ہوجانے کی وجہ سے اُبلنے اور اُگلنے پر مجبور ہو گئے ہیں تب بھی یہ انسانوں ہی کی نااہلی ہے۔
کچھ نادان انسان یہ بھی کر گزرتے ہیں کہ اپنے اپنے قریب کے گٹروں کے ڈھکنے سمنٹ لگا کر اتنی مضبوطی کے ساتھ بند کر دیتے ہیں کہ وہ کم از کم ان کے قریب سے تو نہ اُبل سکیں۔ جس طرح غموں اور دکھوں کے آگے بے بس ہو کر انسانوں کے سینوں سے ایک آہ سرد بلند ہو تی ہے اسی طرح جب گٹر بھی بے بس کر دیے جاتے ہیں تو ایک زورداردھماکے کے ساتھ پھٹ جاتے ہیں اور پھر ان کے اوپر دکانیں ہوں یا بازار، گھر ہوں یا بلند و بالا عمارتیں، ساری کی ساری زمین بوس ہو جاتی ہیں۔
شاید میرا کہنا بہت سارے انسانوں کی دل آزاری کا باعث ہو لیکن کیا کروں۔
’’کہنی پڑتی ہے منہ تک آئی بات‘‘
انسان بھی اسی کی مثل ہیں۔ اوپر سے کتنے نفیس اندر سے کتنے گندے۔ یہ بھی اُبل پڑتے ہیں جب ان کی راہیں مسدود کی جاتی ہیں یا یہ اپنے تئیں یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ ان کی راہوں کو مسدود کیا جارہا ہے اور اس اُبلنے کے نتیجے میں جو جو کچھ وہ اُگل رہے ہوتے ہیں اس کی جانب کوئی شریف انسان آنکھ بھر کر دیکھ بھی لے تو اس کے اندر کا سارا کچھ خود بخود باہر نکل پڑتا ہے۔
عدالت عظمیٰ میں کیا ہو رہا ہے، عدالت عظمیٰ کے باہر کیا ہو رہا ہے، پارلیمنٹ کے اندر اور پارلیمنٹ کے باہر کیا ہو رہا ہے، گلیوں میں اور سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے، میدانوں میں، چوراہوں پر ، گھروں میں کیا ہو رہا ہے، اخبارات میں ، چینلوں ، سرحد کے اِس پار کیا اور سرحد کے اُس پار کیا ہو رہا ہے؟۔ یہ سب گٹر ہی تو ہیں جو اُبل بھی رہے ہیں اور جو کچھ اندر موجود ہے وہ اُگل بھی رہے ہیں۔
حکمران ہوں یا پارٹیوں کے سر براہان، جرنیل کر نیل ہوں یا پولیس کے اعلیٰ عہدیداران، یہ سب گٹر ہی تو ہیں۔ سب اُبلے پڑے ہیں اور جو جو کچھ اُگل رہے ہیں یہ سب وہ گند ہے جو ان کے اندر بھرا ہوا ہے۔ اب کوئی کہے گا کہ ہر لیڈر، ہر حاکم ہر ادارے کا سر براہ، ہر اعلیٰ عہدے دار، عام انسان یا خاص الخاص، وہ اپنا نہیں دوسروں کا گند گن وارہا ہے تو جواب ہوگا کہ گٹر بھی تو کسی اور کے گند کو ہی باہر نکال رہے ہوتے ہیں۔ یہی کام انسان کر رہے ہیں۔ جو بھی گند بھرا ہے وہ دوسروں کا سمجھ کر باہر نکال رہے ہیں، ہر ایک دوسرے کو برا کہنے اور برا ثابت کرنے پر لگا ہوا ہے حالاں کہ، جوش ملیح آبادی نے کیا خوب کہا ہے
آدمی بزم میں دم تقریر
جب کوئی حرف لب پے لاتا ہے
درحقیقت خود اپنے ہی حق میں
کچھ نہ کچھ فیصلہ سناتا ہے
ایک کہہ رہا ہے میں اچھا ہوں تو برا ہے، دوسرا کہتا ہے تو برا ہے میں اچھا ہوں، ایک کہہ رہا ہے تو چور ہے، دوسرا کہہ رہا ہے کہ تو بھی تو چور ہے، ایک کہہ رہا ہے تیرے بچے حلالی نہیں ہیں، دوسرا کہہ رہا ہے کہ تیرے بچے خود تیرے کون سے ہیں۔ میں نے اگر اتنا لوٹا ہے تو تیرے بھی تو محلات بنے ہوئے ہیں۔ بحث اب اس بات کے انکار پر نہیں کہ اس ملک کو، اس کی دولت کو، اس کے وسائل کو، اس کی زمینوں کو اور اس کی جاگیروں کو میں نے نہیں لوٹا، نوچا، گھسوٹا بلکہ اب ساری کی ساری بحث اس بات پر ہورہی ہے کہ بڑا ڈاکو، لٹیرا، چور، قاتل، بھیڑیا اور درندہ کون ہے۔
یہ سارے گٹر ایوانوں میں بھی ہیں اور ایوانوں سے باہر بھی، گھروں میں بھی ہیں اور گلیوں میں بھی، درگاہوں، بازاروں، سڑکوں اور چوراہوں پر بھی۔ سب کے سب اپنے اندر بھری ساری گندگیاں ایک دوسرے پر اچھالنے اور ایک دوسرے کو مزید بدبودار بنانے میں لگے ہوئے ہیں۔
کون نہیں جانتا کہ کون کتنا گندا ہی نہیں پراگندا بھی ہے پھر بھی ہر ’’چناؤ‘‘ کے وقت یہ گندگی کے کیڑے (عوام) گندگی میں جا گرتے ہیں۔ ان سب کیڑوں کی مثال کاپوریشنوں کے ان ملازمین جیسی ہو کر رہ گئی ہے جو گٹروں کے اندر گھس گھس کر گندگیوں کو نکال نکال کر مسکراتے نظر آرہے ہوتے ہیں یا کچرے کے ڈھیر میں دن بھر اپنا رزق تلاش کرنے کے بعد رات کو گند بھرا ٹوکرا اپنے سر کے نیچے رکھ کر سکون کی نیند سوجاتے ہیں۔
الیکٹرونک میڈیا سے زیادہ گندا و پراگندا شاید ہی کوئی اور گٹر (ذریعہ) ہو جو معاشرے کو بگاڑ کی جانب لے جانے کا کردار ادا کر رہا ہو۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ میڈیا گندگی کے غلیظ ترین مادے کو حسین ترین ریپر میں اس طرح ملفوف کرتا ہے کہ اس میں لپٹی بدبو اور غلاظت یوں پوشیدہ ہوجاتی ہے جیسے ڈاکٹر کی کڑوی کسیلی گولیاں چینی کی تہوں میں لپیٹ دی جاتی ہیں۔ یہ سجی سجائی بڈھیاں جو میک اپ کی تہہ در تہہ چڑھاکر بچیاں بن بن کر ادھر سے ادھر پھدک رہی ہوتی ہیں، یہ جوان جہان بچیاں جو لباس میں بھی بے لباسی کا پیکر بنیں ہوئی ہوتی ہیں، یہ جو مجبوراً لباس زیبِ تن کرکے مختلف اشتہارات میں آرہی ہوتی ہیں اور کیمرہ مینوں کا بس نہیں چل رہا ہوتا کہ کہاں کہاں کیمرا لے جائے، یہ سب کچھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا میڈیا دکھا کر کسی بھی قسم کی شرمندگی محسوس نہیں کرر ہا ہوتا۔
دھماکے ہو گئے، شور و شر۔ ایک بیہودہ اشتہار۔ سو مر گئے تین سو زخمی ہو گئے۔ دس بارہ غلیظ ترین اشتہار۔ امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ وہی ٹھٹھول والے پروگرام، آگ لگ گئی، ادھر آگ بجھانے والی گاڑیاں پانی سے آگ بجھانے میں مصروف ادھر دلوں میں لگی آگ کو ناچ گانوں سے ٹھنڈا کیا جا رہا ہے۔ غرض یہ کہ کوئی بھی موقع ہو میڈیا اپنے مشن سے لمحے بھر کو بھی غافل نظر نہیں آتا اور حیرت ہے کہ چالیس سال میں ایک بھی خود کش بمبار ان پر نہیں پھٹا، پھٹنا تو دور کی بات اس جانب کبھی پھٹکا بھی نہیں۔
یہ سب بھی تو ’’گٹر‘‘ ہی ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ ’’منے کی سارے گند ی کوپیمپر‘‘ میں لپیٹ کر یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ گند نہیں۔ کسی شاعر نے شاید ایسی ہی کسی بات کے لیے کہا ہے۔
اللہ اللہ حسن کی سپلائیاں
عشق بھی لینے لگا ابکائیاں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ حقیقی گٹر ہو یا مجازی، ابلنے بند ہو جائیں لیکن ایک بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا دارالعمل ہے اس لیے کسی بھی کام کو تکمیل تک لیجانا ہویا کسی بھی خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنا ہو، وہ خود بخود کبھی نہیں ہو سکتا، ہاتھ پر ہاتھ دھرنا اور کل کا انتظار چھوڑنا ہوگا اور کچھ کرنا ہوگا۔