میگا سٹی کراچی میں طبی سہولیات کا فقدان کئی دہائیوں سے بڑا اسپتال نہ بن سکا 

495

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) میگا سٹی کراچی میں طبی سہولیات کا شدید فقدان، کئی دہائیوں سے کوئی بڑا اسپتال نہ بن سکا، 171سرکاری و نجی اسپتالوں میں صرف 20 فیصد سہولتیں حکومتی سطح پر فراہم کی جا رہی ہیں، اوسطاً شہر کو 600 اسپتال درکار ہیں، سندھ حکومت کے زیر انتظام 8 بڑے اسپتال اندرون و بیرون شہر مریضوں کو طبی خدمات فراہم کررہے ہیں، رش کے باعث اسپتالوں کے ڈاکٹرز اور عملہ بھی پریشان ہے، اسپتالوں کی کم یابی کی وجہ سے
شہری نجی اسپتالوں اور کلینکس سے مہنگا ترین علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ تفصیلات کے مطابق میگاسٹی کراچی میں سرکاری سطح پر طبی سہولتیں انتہائی کم یاب ہیں، کئی دہائیوں سے اسپتالوں کی تعداد اور صحت کی سہولتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ سرکاری و نجی سطح پر صرف 171 بڑے اسپتال موجود ہیں، طبی شعبے میں صرف 20 فی صد سہولتیں حکومتی سطح پر فراہم کی جا رہی ہیں، باقی 80 فی صد سہولتیں نجی شعبے کے کنٹرول میں ہیں، عوام نجی طبی اداروں میں مہنگا ترین علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ کراچی کی موجودہ مردم شماری کے بعد600 سے زائد سرکاری اسپتالوں کی ضرورت ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق سندھ حکومت کے زیر انتظام چلنے والے بڑے اسپتالوں کی تعداد صرف 8 ہے جن میں سول اسپتال بھی شامل ہے، ان کے علاوہ 100 سے زائد مختلف چھوٹے ہیلتھ یونٹس بھی کام کر رہے ہیں لیکن ان میں طبی سہولتوں کا فقدان ہے بلکہ بعض یونٹس تو بند بھی ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس نجی سطح پر وہ طبی ادارے جنہیں مکمل اسپتال کہا جا سکتا ہے ان کی تعداد 1500 سے 2ہزار کے درمیان ہے جبکہ چھوٹے اسپتال یا کلینکس کی تعداد 40 ہزار کے قریب ہے جو ہر گلی محلے میں موجود ہیں۔ ذرائع کے مطابق جب شہر کی آبادی 50 لاکھ تھی تو اس وقت بھی جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جناح اسپتال)، عباسی شہید اسپتال اور سول اسپتال ہی موجود تھے جو پورے شہر کا بوجھ اٹھارہے تھے اور آج بھی 3اسپتال پورے شہر کو ہر قسم کے علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بلدیہ عظمیٰ کراچی کے عباسی شہید اسپتال کے علاوہ 7 اسپتال جبکہ درجنوں ڈسپنسریز کام کر رہی ہیں لیکن وہ بھی معیاری تو درکنار عام علاج کی سہولتیں بھی فراہم نہیں کر پا رہی ہیں۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں تو یہ ڈسپنسریز کام ہی نہیں کر رہی ہیں۔ ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ عباسی شہید اسپتال میں سیاسی بھرتیوں نے علاج معالجے کا نظام مکمل طور پر تباہ کر دیا ہے۔ کچھ اسی قسم کا حال کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کا بھی ہے جس کا بڑا مقصد تھا بہتر، معیاری اور بروقت طبی سہولیات کی فراہمی مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوسکا ہے۔ ذرائع کے مطابق اسپتالوں میں کراچی ہی نہیں سندھ بھر اور ملک کے دوسرے شہروں سے بھی مریض علاج کی غرض سے آتے ہیں جس سے رش مزید بڑھ جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ 1974ء کے بجٹ میں صحت کے شعبے کے لیے 3فیصد بجٹ مختص کیا گیا تھا لیکن حکومت کی عدم دلچسپی اور بے توجہی کے باعث اب یہ بجٹ کل جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم رہ گیا ہے۔ گزشتہ حکومتوں نے اسپتالوں اور شعبہ طب کے لیے منصوبے تو بنائے مگر چند سرکاری اسپتالوں کے قیام سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ 1987ء کے بعد30 سال گزرنے کے باوجود اب تک صحت کی سرکاری سطح پر سہولتوں کی فراہمی کے لیے نہ تو کسی فارمولے پر عمل کیا گیا اور نہ ہی کوئی اور فارمولا سامنے لایا جاسکا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما اور سیکرٹری جنرل ڈاکٹر ایس ایم قیصر سجاد کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے کسی بھی دور حکومت میں صحت کے شعبے کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی، بڑے اسپتال تو دور کی بات ہے چھوٹے اسپتالوں کا بھی اضافہ نہیں کیا گیا۔ کئی عشروں سے جناح، سول اور عباسی شہید اسپتال علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔ قیصر سجاد کا مزید کہنا تھا کہ حکومتی نااہلی کے باعث ان تینوں اسپتالوں میں بلاوجہ کا رش رہتا ہے اور یہاں معمولی امراض کا شکار مریض بھی آ جاتے ہیں جن کی ضرورت نہیں ہے اگر حکومت کی جانب سے مقامی سطح پر چھوٹے چھوٹے اسپتال، صحت مراکز اور ڈسپنسریز قائم کر دی جائیں تو لوگوں کی اکثریت وہاں سے رجوع کرے گی اور بڑے اسپتالوں سے بلاوجہ کا ہجوم چھٹ جائے گا۔