کیا سانحہ زینب ایک اور بشریٰ زیدی کیس بن رہا ہے؟ 

455

مسعود انور

یہ اپریل 1985 کی بات ہے کہ ناظم آباد کراچی میں واقع سرسید گرلز کالج کی دو طالبات کالج آتے ہوئے صبح 8 بجے روڈ کراس کرنے کے دوران حادثے کا شکار ہوکر جاں بحق ہوگئیں۔ حادثے روز کا معمول ہیں مگر اس حادثے کو پٹھان مہاجر فسادات کا رخ دے دیا گیا۔ اس کے بعد دسمبر 1986 میں اورنگی ٹاؤن کے علاقے قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ایک اور خونیں کھیل کھیلا گیا اور کراچی کو ہمیشہ کے لیے ایک لسانی دوزخ میں جھونک دیا گیا۔ یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ قصبہ اور علی گڑھ کالونی میں ہونے والا خونیں واقعہ ہو یا الآصف اسکوائر پر ہونے والی فائرنگ، یہ سب فرشتوں کا کارنامہ تھا جس کے نتیجے میں کراچی میں ہمیشہ کے لیے لسانی جماعتوں کا تسلط قائم ہوگیا۔
پنجاب کے سرحدی علاقے قصور میں معصوم زینب کے ساتھ ہونے والا سانحہ اس قسم کا کوئی پہلا سانحہ نہیں ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ میں ہی اس قسم کے کتنے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں مگر اس پر آنے والے ردعمل کو جو رخ دیا گیا ہے وہ بہت کچھ سوچنے پر مجبور کررہا ہے۔ اس واقعے کو ہر کھلاڑی اپنے مقصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔ مثلاً سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ وائرل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ ضیاء الحق کے دور میں لاہور میں ایک ننھے بچے پپو کے ساتھ ایسا ہی سانحہ رونما ہوا تھا جس کے بعد مجرموں کو سرعام پھانسی دی گئی۔ مجرموں کی لاشیں شام تک وقوعہ پر لٹکتی رہیں جس کے بعد دس سال تک کسی کو ایسا جرم کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اس پوسٹ کے آخر میں طنزاً جمہوریت زندہ باد لکھا ہوا ہے۔ اس کے جواب میں ایک اور پوسٹ وائرل ہے جس میں مشرف دور میں بلوچستان میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ میں ایک خاتون ڈاکٹر کی ایک فوجی کیپٹن کے ہاتھوں عصمت دری کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس واقعہ میں مجرم کو بچا لیا گیا تھا۔ سوشل میڈیا پر جتنے بھی گروپ سرگرم عمل ہیں وہ کسی نہ کسی مقصد کے لیے کام کررہے ہیں۔ ان کا کہیں سے بھی مقصد عوامی خدمت نہیں ہے۔ ان لوگوں کو جہاں سے فنڈ ملتے ہیں، وہ اس کے لیے بھونپو کا کام کرتے رہتے ہیں۔ اس پورے سانحے میں سب سے اہم کردار این جی اوز المعروف سول سوسائٹی کا ہے۔ یہ این جی اوز تنخواہ دار ایجنٹ ہیں اور جب یہ متحرک ہوتی ہیں تو اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کے آقاؤں کی دلچسپی کیا ہے؟ اسی طرح میڈیا کی دلچسپی بھی خالی از علت نہیں ہے۔
اس وقت معصوم زینب کے ساتھ ہونے والے واقعے کو پنجاب حکومت کی تبدیلی کی تحریک میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ ایک بار پھر سے عرب میں رنگین انقلاب کی تاریخ کو دیکھیں۔ تیونس میں ایک سبزی فروش بوعز نے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے خود سوزی کرلی تھی۔ اس واقعے کو عرب میں حکومتوں کی تبدیلی کے لیے استعمال کیا گیا۔ اب این جی اوز کے بھونپو دیکھیں، ان کے سہولت کار دیکھیں، سوشل میڈیا پر بھونچال دیکھیں اور نئی سیاسی پیش قدمیاں دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ میں آتا ہے۔
این جی اوز اور میڈیا کو دیکھ کر ایک بات واضح ہے کہ پنجاب میں حکومت ہٹاؤ تحریک میں بین الاقوامی آقاؤں کو دلچسپی ہے۔ سوشل میڈیا کے مخصوص گروپ دیکھ کر بھی یہ واضح ہے کہ اس میں فرشتے بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس سب کو دیکھ کر منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ سب چاہتے کیا ہیں؟ پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے سے انہیں کیا مقاصد حاصل ہوں گے؟
پنجاب میں ن لیگ کی حکومت کے خاتمے کا مطلب ہے کہ پاکستان میں سیاسی انارکی۔ اس کے نتیجے میں ایک ایسے نئے سیٹ اپ کا قیام جس سے بہت کچھ کروانا آسان ہو۔ لبنان، یمن اور سعودی عرب میں نومبر سے جو کھیل جاری ہے وہ ختم نہیں ہوا ہے۔ ایران میں ہونے والے مظاہرین بھی گھروں کو واپس نہیں گئے ہیں۔ اس خطے میں لگائی جانے والی آگ اب بھی سلگ بھی رہی ہے اور کسی بھی لمحے آتش فشاں کا روپ بھی دھار سکتی ہے۔ اس پورے کھیل میں پاکستان کا کردار سہولت کار کا ہے۔ نائن الیون کے بعد یہ کردار پاکستان با کمال طریقے سے پہلے بھی انجام دے چکا ہے۔ سہولت کار کے اس کردار کی ادائیگی کے لیے پاکستان میں ایک نئی حکومت کا قیام ضروری ہے۔ جب بھی نئی حکومت وجود میں آتی ہے وہ انتہائی طاقتور ہوتی ہے اور ہر قسم کے فیصلے کرسکتی ہے۔ جونیجو انتہائی کمزور حکمراں تھا مگر ابتدائی دنوں میں مضبوط تھا۔ ضیاء اور مشرف بھی آخری دنوں میں کمزور ہوچکے تھے اور من مانے فیصلے کرنے کی طاقت کھو چکے تھے۔ اس لیے عالمی کھیل میں سہولت کاری کے کردار کے لیے نئے کھلاڑی ضروری ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ معصوم زینب کے واقعے کو بشریٰ زیدی کیس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ اس کھیل کو ہر طرح سے آگے بڑھایا جارہا ہے۔ سارے ہی اداکار اپنا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کررہے ہیں۔ تحریک میں روز ایک نیا رنگ شامل ہو رہا ہے۔ اس پس منظر میں اب دوبارہ سے سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم دیکھیں، میڈیا پر سانس پھلائے اینکروں کو دیکھیں، اخبارات کی خبروں کا انداز دیکھیں، کاغذی تنظیموں کے پریس کلب پر تواتر سے مظاہرے دیکھیں، این جی اوز کی چلت پھرت دیکھیں تو نئے زاویے وا ہوں گے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔