شہری حکومت یو میہ 7ہزارٹن کچرا چھوڑ رہی ہے

277

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور گزشتہ سال چلائی جانے والی 100 روزہ مہم بھی کراچی سے کچرے کا بوجھ کم نہ کر سکی،  کراچی میں روزانہ 12ہزار میٹرک ٹن کچرا پیداہوتاہے، ٹھکانے صرف 5ہزار میٹرک ٹن کچرا لگایا جا رہا ہے باقی 7ہزار میٹرک ٹن کچرا یومیہ کہاں جا رہا ہے؟ اگر کچرے کو مکمل طور پر اٹھانا ہے تو فوری طور پر شہر میں صفائی ستھرائی کے عملے کی تعداد میں قریباً د گنا اضافہ کرنا ہوگا،کراچی کی میٹرو پولیٹن اور میونسپل کارپوریشنز 12ہزار یومیہ ذخیرہ ہونے والے کچرے میں سے محض 5ہزار میٹرک ٹن کچرا ٹھکانے لگا رہی ہے جب کہ باقی ماندہ 7ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں ہی موجود رہتا ہے، 7ہزار میٹرک ٹن کچرا شہر میں موجود ہو وہ بھی گزشتہ 5سے 7سالوں کے دوران تو تخمینہ لاکھوں میٹرک ٹن بنتا ہے اس کے باوجود کہ کئی صفائی مہمات میں ہزاروں میٹرک ٹن کچرا اٹھا بھی لیا گیا ہو گا مگر پھر بھی کثیر مقدار میں کچرا اب بھی شہر میں موجود ہوتا ہے۔ ملیر، لیاری ندیوں کے علاوہ اورنگی کے ساتھ ریلوے ٹریک سے ملحقہ جگہیں کچرے کے پہاڑ کا منظر پیش کرتی ہیں مگر اس کی مقدار بھی 7 ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا شہر میں موجودگی کو ظاہر کرنے سے قاصر ہے۔

سروے اور ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق 5ہزار میٹرک ٹن یومیہ کچرا اٹھانے کے بعد باقی ماندہ کچرے میں شہر بھر سے ایک محتاط اندازے کے مطابق قریباً 4ہزار میٹرک ٹن کچرا، کچرا چننے والے اپنے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کباڑیوں کو فروخت کر دیتے ہیں۔ اس میں زیادہ تر کچرا ہیوی مٹیریل جیسے دھاتوں اور شیشے کی اشیا پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ حیرت انگیز طور پر پلاسٹک اشیا کو کچرے سے حاصل کر کے ری سائیکل کر کے مختلف پلاسٹک مصنوعات میں استعمال میں لایا جاتا ہے، کاغذی کچرا ہاتھوں ہاتھ ری سائیکل کر لیا جاتا ہے، اس طرح اس سے ملتی جلتی اشیا کچرے سے حاصل کی جاتی ہیں مگر استعمال صنعتوں میں ہوتی ہیں جب کہ بلدیاتی ادارے معقول رقم پر مختلف صنعتوں کو ان کی ضروریات کے مطابق اشیا فراہم کر کے مالی فوائد حاصل کرتے ہیں، اس سلسلے میں ان کا تعاون گاربیج اسٹیشنز تک ہوتا ہے جہاں سے وہ رات گئے تک کچرا چننے کی اجازت دیتے ہیں اور اس دوران مذکورہ عمل سر انجام دیا جاتا ہے، کہیں بھی کچرا چننے والے موجود ہوں تو وہ کچھ ہی دیر میں کچرے سے اپنے مطلب کی اشیا نکال کر کچرے کو ہلکا کر دیتے ہیں اب ایسی صورت میں بھاری کچرے کی شہر میں موجودگی کے خدشات ختم ہو گئے ہیں۔

گیلا کچرا مستقل پڑا رہے تو چند دنوں میں سوکھ کر اپنا آدھا وزن ختم کر دیتا ہے جو یا تو غیر محتاط طریقے سے شہر کے مختلف مقامات پر جلا دیا جاتا ہے یا ملیر و لیاری سمیت دیگر ندی نما جگہوں پر آلائشوں کو دفنانے کی طرز پر بنائی جانے والی خندقیں کھود کھود کر زمین برد کیا جاتا ہے جب کہ ہائی رائز بلڈنگز کی بنیادوں میں بھی ٹنوں کچرا بھرائی کے لیے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اس طرح ایک اندازے کے مطابق6 میٹرک ٹن کچرا یومیہ مختلف مقاصد میں استعمال ہو کر شہر میں کچرے کے بجائے دوسری شکلیں اختیار کر لیتا ہے، باقی ماندہ ایک میٹرک ٹن کچرا شہر میں کچرے کے پہاڑ بناتا ہے جس کی صفائی کے لیے کچھ کچھ عرصے بعد صفائی مہمات کی ضرورت پڑتی ہے۔ 2 کروڑ کی آبادی کے اس شہر میں صرف 22ہزار سینیٹری ورکرز ہیں جو ضروریات سے کہیں کم ہیں جب کہ دستیاب مشینری خستہ حال ہونے کے ساتھ ناکافی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صفائی ستھرائی کے کاموں پر مامور عملہ اپنی سہولت کی خاطر ان کچرے کے ڈھیروں میں آگ لگا دیتا ہے جو ایک طرف شہر میں ماحولیاتی آلودگی پھیلا رہا ہے تو یومیہ ہزاروں شہریوں کو انتہائی مہلک اور خطرناک امراض میں بھی مبتلا کر رہا ہے۔ اگر کچرے کو مکمل طور پر اٹھانا ہے تو فوری طور پر شہر میں صفائی ستھرائی کے عملے کی تعداد میں قریباً د گنا اضافہ کرنا ہوگا اور سو ہیوی ڈمپرز، اتنے ہی لوڈرز و دیگر مشینری ضروریات کے مطابق خریدنی ہو گی۔

اس حوالے سے جب پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مرکزی رہنما اور ای این ٹی سرجن ڈاکٹر سید قیصر سجاد سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ جلایا جانے والا کچرا گلے، نرخرے اور پھیپھڑوں کے کینسر سمیت دیگر جان لیوا امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔ ای این ٹی سرجن ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید کہا کہ بلدیاتی اداروں کی ناقص کارکردگی نے شہریوں کی اکثریت کو مختلف امراض میں مبتلا کر دیا ہے، شہر میں جا بہ جا گندگی کے ڈھیر، گلیوں، بازاروں اور شاہراہوں پر جمع سیوریج کا گندا اور آلودہ پانی اور کچرے کو مقررہ جگہ پر تلف کرنے کے بجائے اسے جلا دینے کے عمل نے شہریوں کو ناک کی نالی میں سوزش، الرجی، پھیپھڑوں کی نالیوں کی بیماری، دمے، ٹی بی، گلے اور نرخرے کے کینسر اور دیگر جان لیوا امراض میں مبتلا کر دیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ شکار بچے ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر سجاد نے مزید بتایا کہ اکثر علاقوں میں پینے کے پانی کے ساتھ سیوریج کا پانی شامل ہو کر شہریوں میں ہیپا ٹائٹس اے اور سی، گیسٹرو، پیٹ میں درد، مروڑ اور معدے کی تکالیف، ٹائیفائیڈ، ہیضے جیسے امراض کو جنم دے رہا ہے، جمع شدہ پانی کو بارش کا پانی سمجھ کر بچے اس میں کھیلتے ہیں، دراصل اس پانی کو سیوریج کا پانی مزید آلودہ کر دیتا ہے اور بچوں میں جلدی بیماریوں، آنکھوں کی سوزش یا آشوب چشم، انفیکشن، گلے کی خرابی اور تیز بخار کی کیفیت پیدا کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ احتیاط کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ بلدیاتی ادارے اپنی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے فوری طور پر شہر میں جراثیم کش اسپرے مہم کا آغاز کریں، کچرے کو جلانے کے بجائے انہیں شہر سے باہر مقررہ جگہ پر مقررہ طریقے سے تلف کریں اور سیوریج کے آلودہ اور گندے پانی کی فوری نکاسی کے لیے مناسب اقدامات کریں۔