را، موساد، بلیک واٹر، سی آئی اے۔ سب نظر انداز

454

اللہ ربّ العزت کے کرم اور احباب کی دعاؤں کے طفیل ایک بار پھر جب عمرے کی سعادت حاصل کر کے وطن عزیز کی سرزمین پر قدم رکھا ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی تھی کوئی نوجوانوں کے قتل کا نوحہ کر رہا تھا تو کوئی معصوم کلیوں کی آبرو ریزی و قتل پر ماتم کناں تھا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی عقوبت خانے میں داخل ہو گیا ہوں۔ زینب ہو یا عاصمہ، تنظیم ہو کہ نقیب، کراچی تا مردان کوئی صوبہ، کوئی علاقہ، کوئی شہر، ملک کا چپہ چپہ زخمی زخمی ہے ہر زخم سے خون رس رہا ہے حکمراں چین کی بانسری بچا رہے ہیں۔ ستم بالائے ستم اس غم زدہ قوم کے زخموں پر مرہم رکھنے کی خاطر ہی نہ تو اس ملک کا صدر لب کشائی کی زحمت کر رہا تھا نہ وزیر اعظم جو انہی کیڑے مکوڑوں کے ووٹوں اور ٹیکسوں کے طفیل صدارتی اور وزیر اعظم کے محلوں میں براجمان ہیں۔ ان کے سینوں میں نہ دل ہے نہ رگوں میں خون کی گرمی کہ وہ بلکتی زینب اور تڑپتی عاصمہ کے محکوم مجبور اور مظلوم والدین کی داد رسی کے لیے دو بول ہی بول دیں حکمرانوں کی ایسی بے حسی کسی بھی قوم کے لیے وعید عذاب سے کم نہیں ہوتی۔ تحقیقات کے ایسے ایسے نمونے سامنے آ رہے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ سر دیوار پر مار لیا جائے ایک مجرم کو پکڑنے کے لیے پورے گاؤں کے مردوں کا ڈی این اے کرایا جا رہا ہے حالاں کہ یہ بھی کم ہے چاہیے تویہ تھا کہ پنجاب کے آٹھ کروڑ مردوں کا ڈی این اے کرایا جاتا اور یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ کوئی ڈی این اے وزیر اعلیٰ ہی سے میچ کر جاتا جیسا کہ ماضی میں بدامنی کو روکنے کے لیے ڈبل سواری پر ہی پابندی لگا دی جاتی تھی اور اب تک کسی بھی خدشے کے پیش نظر خاص طور پر محرم اور اس کے چہلم پر تو لازمی یہ پابندی لگائی جاتی ہے ایک شخص کی فائرنگ سے بچنے کے لیے تین کروڑ پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ بھلا دنیا میں ہے کوئی اتنی ذہین حکومت جو ہمارے حصے میں آئی ہے؟
زینب کے کیس میں یہ بات ایک ویڈیو سے منظر عام پر آئی ہے کہ ایک بہت اونچی پہنچ رکھنے والا شخص ہے جو باہر سے آتا ہے اور اس قسم کی کارروائیاں کر کے باہر فرار بھی بآسانی ہو جاتا تو اب تک تو وہ اپنے ٹھکانے پر بھی پہنچ چکا ہوگا مگر گاؤں کا ہر مرد مشکوک ٹھیرایا گیا۔ ایسی عقل سے عاری تحقیقات کا مقصد مجرم کو چھپانا یا باہر نکلوانا ہی مقصود ہو سکتا ہے۔ جس کے ہاتھ را موساد بلیک واٹر یا سی آئی اے تک لمبے ہوں تو بھلا کس پاکستانی اتھارٹی کی یہ اتھارٹی ہے کہ وہ معلوم ہونے کے باوجود اس کو پکڑ سکے۔ ماضی قریب میں نواز لیگ کے ارکان اسمبلی ایسی غلیظ مکروہ اور رجم کی سزا کی مستحق کارروائیوں میں مصروف رہے ہیں۔ ایک صوبائی اسمبلی کا رکن جو قریباً تین سال پہلے معصوم بچوں کی پونو گرافک ویڈیوز یورپ کو فراہم کرتا رہا ہے سارے ثبوت حاصل ہونے کے باوجود ان تین سو بچوں کے والدین کو ابھی تک انصاف نہیں ملا یہی ایم پی اے مریم نواز سے بہت قربت رکھتا ہے۔ جس کی حال ہی میں مریم کے ساتھ ایک تصویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے ایسا ایم پی اے نواز لیگ سے بہت گہری قربت و وابستگی رکھتا ہے ایسے گھناؤنے افعال تواتر کے ساتھ نواز لیگ کے دور میں ہو رہے ہیں جن میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات اور نوجوانوں کو پولیس کے ہاتھوں قتل شامل ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مغرب سے ملنے والے ایجنڈے میں یہ بھی شامل ہے۔ زینب کیس کے فوراً بعد مغرب کی خیرات پر پلنے والی موم بتی آنٹیاں میدان میں کود پڑیں کہ بچوں کو اسکولوں میں جنسی تعلیم کے انتظامات کیے جائیں بھلا بچی کے قتل اور زیادتی کا جنسی تعلیم سے کیا تعلق ہے مگر چوں کہ وہ مغرب کی بھیک کھا کھا کر اپنی اپنی وفاداریاں نبھارہی ہیں پھر مغرب ان سے ان کی کار کردگی کے بارے میں سوال کرتا ہے اس لیے موقع بموقع ایسے مطالبا ت سامنے لاتی رہتی ہیں اور ان موم بتی مافیہ کا غلام اعلیٰ وزیر اعلیٰ پنجاب فوراً ان کی بات ماننے کو تیار بھی ہو جاتا ہے لیکن ماڈل ٹاؤن کے قاتل سامنے لانے کو تیار نہیں۔ ماضی میں وزیر اعلیٰ پنجاب نے بیان دیا تھا کہ ہم کیا کریں یہ این جی اوز پیسے دیتی ہیں تو ان کی بات ماننی پڑتی ہے۔
پنجاب سندھ اور ملک کے دیگر حصوں میں غربت افلاس جہالت اپنے عروج پر ہے جہاں ماں باپ اپنے لخت جگر کو چند ہزار کے عوض بیچنے پر مجبور ہیں، مائیں اپنی گودیں خالی کر کے بچوں کو دریا برد کر رہی ہیں کہ ان کے پاس ان معصوموں کو کھلانے کے لیے پیسے نہیں ہیں ایسی بھیانک اقتصادی صورت حال میں کسی بھی افلاس زدہ شخص کو چند ہزار یا چند لاکھ دے کر کوئی بھی گھناؤنا کام کرایا جا سکتا ہے پھر اس پر تحفظ کی بھی یقین دہانی کرائی جائے تو یہ کام اور بھی آسان ہو جاتا ہے اسی لیے نبی کریم ؐ نے افلاس سے پناہ مانگی ہے کہ غربت و افلاس انسا ن سے اس کا ایمان بھی چھین سکتی ہے۔ اب تک کم و بیش چودہ معصوم بچیوں کی عصمت دری اور قتل کے واقعات صرف پنجاب میں ہو چکے ہیں اور کوئی قاتل بھی نہیں پکڑا گیا ایسا لگ رہا ہے جیسے اس ملک کا پورا خرچہ یہی مغرب کی بھکارنیں دیتی ہیں اور یہ نوکر اعلیٰ ان کی بات ماننے پر مجبور ہے۔
مغرب ایسے واقعات کی آڑ میں اپنے کارندوں کے ذریعے سے قوانین میں تبدیلی بھی کروانا چاہتا ہے جن میں اسکولوں کالجوں میں جنسی تعلیم سر فہرست ہے اب پانچ چھ سال کی بچی کو جنسی تعلیم کس بنیاد پر دی جائے اور اس کو کیا معلوم کہ اس کو کس مقصد کے لیے اغوا کیا جا رہا ہے۔ مغرب کی مایوسیاں اس قدر بڑھتی جا رہی ہیں کہ جس معاشرے کو خراب کرنے کے لیے انہوں نے میڈیا کی ٹوٹل پالیسی اپنے خیرات زدہ افراد کے ہاتھوں میں دے کر یہ سمجھا تھاکہ اب پاکستان کے ہر گھر سے لڑکی مغربی لباس پہن کر باہر نکلے گی اور مغرب کی طرح بوائے فرینڈز بناتی پھرے گی لیکن پندرہ سال تک دن رات میڈیا پر بیہودہ پروگرام پیش کرنے کے باوجود ناچ گانے اور بھارتی فلموں کی تھرکتی نیم برہنہ اداکاروں کو دیکھ دیکھ کر نوجوان جنس کا دیوانہ ہو جائے گا لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس کے مساجد میں نوجوانوں کی تعداد میں خلاف توقع اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور لڑکیوں میں برقع پہنے کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے۔ جہاں پوری مارکیٹ میں برقعے کی ایک دو دکانیں بمشکل دکھائی دیتی تھیں اب ہر مارکیٹ میں برقع اور عبایا کے لیے پورے پورے سیکشن الگ سے دستیاب ہوتے ہیں جن میں بیس پچیس دکانیں صرف برقعے اور عبایا کے لیے مخصوص ہوتی ہیں اور معاشیات کا معمولی سا علم رکھنے والا طالب علم سمجھتا ہے کہ مارکیٹ میں رسد طلب کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔
ان کارروائیوں سے مغرب کی مایوسی بالکل عیاں ہے اسی لیے اب اس نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سے یہ گھناؤنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے حیرت کی بات ہے کہ کسی بھی کیس کا کوئی مجرم پکڑا ہی نہیں جا رہا بلکہ تحقیقات میں بھی سوائے وقت ضائع کرنے کے کچھ نہیں ہو رہا کیوں کہ شاید نواز لیگ کے ایما پر ہی ایسا ہو رہا۔ جن این جی اوز کی مانیٹرنگ را، موساد، بلیک واٹر اور سی آئی اے کر رہی ہیں ان کی طرف سے حکومت نے بالکل چپ سادھ رکھی ہے اگر تحقیقات کا ایک حصہ خفیہ طور پر اس طرف بھی موڑ دیا جائے تو حکومت کو بہت سے معلومات حاصل ہو سکتی ہیں اور چاہے وہ قوم کے ساتھ شیئر بھی کریں لیکن این جی اوز کے بارے میں پالیسیاں بنانے میں مدد گار تو ثابت ہو سکتی ہیں۔ میڈیا بھی اپنے وسائل استعمال کر کے اس طرف توجہ کر سکتا ہے کہ اس سیلاب غلاظت کی روک تھام کے لیے کہیں سے تو کوئی اقدام کیا جاسکے۔