از خود نوٹس: زود پشیماں کی پشیمانی

375

نقیب اللہ محسود کے ماورائے عدالت قتل کے سلسلے میں عدالت عظمیٰ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی شفاف تحقیقات کا حکم جاری کیا ہے۔ یہ نوٹس اس وقت جاری کیا گیا جب جنوبی وزرستان کے بعد کراچی میں بھی ہنگامے پھوٹ پڑے۔ جس پولیس آفیسر کے خلاف عدالت عظمیٰ نے یہ ایکشن لیا ہے اس کے ہاتھوں ان گنت لوگ کسی بھی قسم کی عدالت کا سامنا کیے بغیر قتل کیے جا چکے ہیں۔ ان سب مارے جانے والوں کے خلاف سنگین الزامات لگائے جانے کے باوجود کسی ایک کو بھی عدالت میں پیش نہ کیا جانا اپنی جگہ خود ایک بڑا سوال ہے۔ لیکن عدالت نے آج تک اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش نہیں کی اور اب عدالت معاملے کی تحقیق کے لیے از خود نوٹس کیوں جاری کر رہی ہے، یہ اس سے بھی بڑا سوال ہے۔ایس ایس پی راؤ انوار پہلی بار کسی انکوائری کا سامنا نہیں کر رہے۔ اپنے 35 سالہ کیریئر میں ہر بار وہ کسی بھی انکوائری میں معصوم قرار دے دیے جاتے ہیں۔
بی بی سی کے ’’ریاض سہیل‘‘ نے راؤ انوار کی ایک مختصر ہسٹری جاری کی ہے جس کے مطابق راؤ انوار شاید واحد رینکر افسر ہیں جو کسی ضلعے کی سربراہی کر رہے ہیں۔ راؤ انوار 1980 کی دہائی میں پولیس میں بطور اے ایس آئی بھرتی ہوئے، ترقی پاتے ہی ایس ایچ او کے منصب پر پہنچ گئے، اس عرصے میں وہ زیادہ تر گڈاپ تھانے پر تعینات رہے۔ 1992 میں جب ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تو راؤ انوار اس میں بھی پیش پیش تھے۔ گزشتہ دس سال میں وہ زیادہ تر ایس پی ملیر کے عہدے پر ہی فائز رہے۔ سپر ہائی وے پر بڑے تعمیراتی منصوبے کے بعد سہراب گوٹھ کے آس پاس میں مبینہ پولیس مقابلوں کا آغاز ہوا، جن میں ایس ایس پی راؤ انوار کی قیادت میں درجنوں مبینہ شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تاہم اس مقابلوں میں پولیس کو کوئی جانی نقصان نہیں پہنچا۔ اپنے مقابلوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ان کا پہلا مقابلہ ایم کیو ایم کے فہیم کمانڈو کے ساتھ ہوا تھا جس میں وہ مارا گیا۔ 2015 میں انہوں نے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارتی خفیہ ادارے را سے روابط رکھنے کا الزام عائد کیا، انہوں نے یہ الزامات دو ملزمان طاہر لمبا اور جنید کے بیانات کی بنیاد پر عائد کیے تھے اور وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ ایم کیو ایم پر پابندی عائد کی جائے۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ان الزامات پر ناراضی کا اظہار کیا جس کے بعد راؤ انوار کو عہدے سے ہٹادیا گیا لیکن یہ معطلی عارضی رہی۔ 2016 میں راؤ انوار کو آخری بار اس وقت معطل کیا گیا تھا جب انہوں نے ایم کیو ایم کے پارلیمانی رہنما خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کیا، تاہم چند ماہ بعد وہ دوبارہ اسی منصب پر بحال ہوئے۔ کراچی کے میئر وسیم اختر کو بھی راؤ انوار ہی نے گرفتار کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ وہ متعدد مقدمات میں مطلوب ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار انہیں پیپلز پارٹی کی قیادت کا خاص الخاص قرار دے چکے ہیں، جب کہ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق سینیٹر نہال ہاشمی نے بلدیاتی انتخابات میں الزام عائد کیا تھا کہ راؤ انوار نے ان کے لوگوں کو منحرف کرکے پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین کو ووٹ کرائے۔ سندھ ہائی کورٹ اور پولیس محکمے میں راؤ انوار کے خلاف لوگوں کو ہراساں کرکے زمینوں پر قبضے کرنے کی شکایات سامنے آتی رہی ہیں، عدالت میں پیش نہ ہونے پر ان کے کئی بار وارنٹ بھی جاری ہوچکے ہیں، وہ عدالت میں پیش ہوکر یہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ان کی زندگی کو خطرہ ہے لہٰذا انہیں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔ ایک سابق ایس پی نیاز کھوسو نے راؤ انوار کے خلاف ناجائز طریقے سے اثاثے بنانے اور بیرون ملک ملکیت منتقل کرنے کے الزام میں درخواست دائر کر رکھی ہے۔
ملک کے طول و عرض میں افواج پاکستان شرپسندوں اور دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ جب جب بھی دوطرفہ مقابلہ ہوا ہے افواج پاکستان کے جوان ضرور زد میں آئے ہیں۔ شہادتیں بھی اٹھانا پڑیں اور جوان زخمی بھی ہوئے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ کسی بھی قسم کا کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ہو۔ ایس ایس پی ملیر نے وہ کون سا علم سیکھا ہوا ہے کہ اس کی جانب لپکنے والی ہر گولی ہوا میں تحلیل ہوتی رہی اور اس کے قافلے میں شریک کوئی ایک فرد بھی زد میں آئے بغیر آگ و خون کے دریا سے گزرتا رہا۔ اگر محض اس ایک بات کی تصدیق کرنے کے لیے اقدامات کر لیے جاتے تو نہ جانے کتنے معصوم لقمہ اجل بننے سے بچ رہتے۔
نقیب پر لگائے جانے والے الزامات تو سارے کے سارے وہ ہیں جس کو ثابت کرنا کہیں سے بھی مشکل نہیں تھا۔ اگر عام عدالتوں میں لیجانے کے بجائے اس کو فوجی عدالت میں پیش کیا جاتا تو اور بھی احسن قدم ہوتا۔ پھر یہ کہ چند دن قبل گرفتار کرکے اس سے ہر راز اگلوانے کے بعد اس کا قتل بنتا ہی تھا۔ قتل بھی کیا جائے تو اس میں بھی کچھ انسانیت کے تقاضے ہوتے ہیں۔ مارنے کے بعد لاش کو جلاکر یہ کہنا کہ وہ خود کش بمبار تھا کتنا بھیڑیا صفت طرز عمل ہے۔ ایسے اقدامات کے بعد کسی تحقیق کی گنجائش بنتی ہی نہیں ہے اور عدالت کے حکم کے بعد تو فوراً اس کی معطلی اور گرفتاری عمل آنی چاہیے تھی۔ یہی وہ انداز ہے جس کو سامنے رکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ انصاف کی توقع رکھنا دیوانے کے خواب سے زیادہ اور کچھ نہیں۔ ظلم ہوتے رہنا پاکستان کا مقدر بنتا جا رہا ہے اور ایسا ہوتے رہنا ایک ایسی حقیقت بن چکا ہے جس کا ختم کرنا اب ناممکن سا ہو چکا ہے۔