سندھ حکومت صاف پانی سے متعلق عدالتی احکامات پر عمل کرانے میں ناکام 

129

کراچی(رپورٹ:مسعود انور)ایک سال گزرنے کے باوجود سندھ حکومت پینے کے پانی میں صنعتی آلودگی کی روک تھام کے حوالے سے عدالت عظمیٰ سے ملنے والے تمام احکامات پرکوئی عملدرآمد کرانے کے بجائے ٹالنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا تھا کہ اُس وقت ادارے کے ڈائریکٹر جنرل نعیم احمد مغل جو نان کیڈر افسر تھے اُنہیں ہٹا کر کسی کیڈر افسر کو ڈی جی ای پی اے سندھ تعینات کیا جائے ۔ ادارے کی لیبارٹری کو فوری طور پر فعال اور موثر بنایاجائے۔سندھ میں ضلعی سطح پر ادارے کے دفاتر کھولے جائیں تاکہ ماحولیاتی خدمات کی رسائی عام آدمی تک پہنچ سکے۔ادارے کی سالانہ رپورٹ فی الفور جاری کی جائے۔لیبارٹری کو فعال بنانے کے حوالے سے بھی ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے اور لیبارٹری جیسے بڑے سیکشن کو ایک ڈپٹی ڈائریکٹر کے سپرد کردیا گیا ہے جسے اس سے قبل لیبارٹری چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہے اور اب تک کام ٹھیک طرح سے سنبھال نہیں سکا ہے اور نہ ہی لیبارٹری میں مختلف مدوں میں خریدا جانے والا سامان مکمل ہے ایسے سامان کو صرف کاغذوں میں دکھایا جاتا ہے۔ایک سال گزرنے کے باوجود اب تک آلودگی پھیلانے والی چند صنعتوں کے علاوہ بڑی تعداد میں آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا جاسکا ہے جبکہ کچھ صنعتوں پر ایک سے 3لاکھ روپے تک جرمانے عاید تو کیے گئے ہیں مگر اب تک وصول نہیں کیے گئے ہیں اور نہ ہی اُن کی وصولیابی کے لیے کوئی طریقہ کار متعین کیا گیا ہے۔ گزشتہ سال فروری میں معروف وکیل شہاب اوستو نے عدالت عظمیٰ میں آئینی درخواست دائر کرتے ہوئے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ حکومت سندھ صوبے کے رہنے والوں کو آلودہ پانی کیوں فراہم کررہی ہے۔ جس کے جواب میں عدالت عظمی نے ایک سابق جج اقبال کلہوڑو پر مشتمل ایک رکنی واٹر کمیشن تشکیل دیا تھا۔بعد ازاں ریٹائرڈ جسٹس امیر ہانی مسلم کو سربراہ مقرر کیا گیا ہے ۔جن کے ذمے پورے سندھ میں پینے کے پانی کی فراہمی کی پڑتال کرکے آلودہ پانی فراہم کرنے والے ذمے دار اداروں کی نشاندہی کرنا تھا۔ ایک ماہ میں واٹر کمیشن نے پورے سندھ کا دورہ کرکے اہم شہروں میں فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی کے نمونے حاصل کیے اور اُن کی تجزیاتی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش کی جس کے مطابق سندھ کی تمام صنعتوں اور گھروں کا استعمال شدہ پانی براہ راست سمندر،دریائے سندھ، نہروں اور شاخوں میں جاتے ہوئے استعمال کے پانی کو مستقل آلودہ کررہا ہے اور اس کے ذمے دار صنعت، بلدیات، زراعت، آب پاشی اور ماحولیات کے محکموں کے ساتھ ساتھ کراچی اور حیدرآباد میں پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کے ذمے دار ادارے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ اورحیدر آباد واٹر اینڈ سیوریج اتھارٹی ہیں۔مذکورہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے سندھ حکومت نے عدالت عظمیٰ کو مطمئن کرنے کے لیے فوری طور پر نعیم مغل کو ڈائریکٹر جنرل کے عہدے سے ہٹا کر ایک کیڈر افسر بقاء اللہ انڑ کی تعیناتی تو کردی مگر بعد میں ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ کو کیڈر سے نان کیڈر کا درجہ دیتے ہوئے نعیم مغل کے لیے بطور ڈی جی دوبارہ تعیناتی کی راہ ہموار کردی اور اس ضمن میں نعیم مغل عدالت عظمی میں اپنے ہٹائے جانے کے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست بھی دائر کرچکے ہیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے مطابق سندھ کے تمام کے تمام اضلاع میں ضلعی دفاتر کھولے جانے تھے ، اس میں بھی سندھ حکومت نے بڑی ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے اس فیصلے پر عملدرآمد کو3 مرحلوں میں3برس کے عرصے میں پورا کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اس سال 10 ضلعی دفاتر کھولنے کے لیے مانگی گئی245 ملین کی رقم میں سے صرف 100 ملین روپے جاری کیے ہیں جبکہ ذرائع کا کہنا ہے کہ جاری کی جانے والی رقم مانگی جانے والی رقم کا محض 35 فیصد ہے جس سے بمشکل 4 ضلعی دفاتر کُھل سکیں گے۔دوسری جانب ادارے میں اہل اور ایماندار سینئر افسران کی کمی کے باعث 4 دفاتر کھولے جانے کے امکانات بھی کافی معدوم ہوتے جارہے ہیں۔