آزادانہ ووٹ …. عورت کا اولین حق

1023

پچھلے سال انتخابات کے موقع پر ایک سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ اس کے محلے میں خواتین ووٹ ڈالنے کے لیے نکلنا اپنی ترجیحات میں آخری نکتہ کے طور پر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے پہلے وہ ایسا نہیں سمجھتی تھیں۔ کراچی جیسے شہر میں پڑھے لکھوں کی حالت یہ تھی کہ کوئی کہتی تھی میں کھانا پکا اور کھلا کر جاؤں گی۔ اس اثنا میں ووٹنگ کا وقت ختم ہوجاتا۔ کوئی اپنی مشکل بتاتی کہ اس نے کپڑے دھونے کی مشین لگا رکھی ہے۔ لہٰذا اس کا نکلنا مشکل ہے، کسی کا کہنا تھا کہ اس کے ہاں مہمان آرہے ہیں، لہٰذا ایسے موقعے پر وہ ووٹ ڈالنے نہیں نکل سکتی، مہمان بھی سسرال والے ہیں جنا کا باتیں بنانا لازم ہے لہٰذا میرا ووٹ تو بھول ہی جائیں۔
کوئی پوچھے کہ کیا مہمانوں نے ووٹ نہیں ڈالنا تھا؟؟ ایک خاندان میں کوئی آٹھ ووٹ تھے، سیاسی کارکن کا کہنا تھا کہ ان کو فون کرکے پوچھا تو کہنے لگیں گاڑی بھیج دیں، اچھا جی گاڑی بھیج دی تو دادی اماں ایک ننھی بچی کا ہاتھ تھام کر اکیلی آگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی لوگ کچھ زیادہ ضروری کاموں میں مصروف تھے لہٰذا وہ نہ آسکے!!!۔ صورت حال یہ ہے کہ ووٹ کا استعمال کرنا کوئی ضروری کام تصور نہیں کیا جاتا۔ خاص طور سے خواتین کے لیے۔ سوچ یہ ہے کہ ہمارے ووٹ سے کچھ ہونے والا نہیں۔ ہوتا وہی ہے جو سیاسی پنڈت اور اسٹیبلشمنٹ ملی بھگت کے ذریعے کرنا چاہتے ہیں۔ یہ سوچ خود ووٹر اور الیکشن کے نظام کے لیے نقصان دہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خواتین ایک بڑی تعداد میں ووٹر ہیں اور مساوی شہری ہونے کے ناتے انہیں جو یہ حق ملا ہے جس کی بدولت ووٹ کا راستہ انہیں فیصلہ سازی کی طرف لے جاتا ہے، حالیہ الیکشن کمیشن نے ملک کی سیاسی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ انتخابی عمل میں خواتین کی بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی میں کردار ادا کریں، اس کے لیے الیکشن کمیشن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے نام لکھے گئے ایک خط میں اپیل کی گئی کہ مرد اور خواتین کی بھرپور شرکت کی حوصلہ افزائی میں کردار ادا کریں۔ اس وقت انتخابی فہرستوں میں کل ووٹرز کی تعداد 9 کروڑ 71 لاکھ ہے جن میں سے 4 کروڑ 24 لاکھ خواتین ووٹرز ہیں۔ کسی بھی الیکشن میں اگر خواتین گھروں سے نکل کر ووٹ ڈالنے میں سنجیدہ ہوجائیں تو نتائج پر فیصلہ کن اثرات ڈال سکتی ہیں۔ یہ بات خواتین کے لیے بھی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ مردوں کے لیے۔ کسی جماعت کے حکومت میں آنے یا نہ آنے کے اثرات سے جس طرح مرد متاثر ہوتے ہیں ویسے ہی عورتیں بھی متاثر ہوتی ہیں بلکہ اگر دیکھا جائے تو زیادہ ہی ہوتی ہیں کیوں کہ ان میں زیادہ حساسیت ہوتی ہے وہ اپنے بچوں اور شوہروں کے لیے زیادہ سوچتی ہیں زیادہ فکر مند ہوتی ہیں۔
اس دفعہ الیکشن کمیشن نے خواتین ووٹرز کی زیادہ سے زیادہ شرکت کے لیے ایک خصوصی ونگ قائم کیا ہے۔ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی اس کے لیے اپنے ہاں خصوصی ونگ بنائیں۔ میڈیا معاشرے میں آگہی پیدا کرے، اخبارات اس کے لیے خصوصی کوششیں کریں۔ آج بھی بہت سی خواتین ایسی ہیں جن کے پاس شناختی کارڈ تک نہیں ہے۔ یوں وہ اپنا حق رائے دہی استعمال ہی نہیں کرسکتیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس کے لیے ترغیب دینی چاہیے، کوشش کرنی چاہیے، نادرا اور الیکشن کمیشن کو بھی خواتین کے انتخابی عمل میں شمولیت کو آسان بنانا چاہیے اور سیاسی جماعتوں کو یقین رکھنا چاہیے کہ اس عمل سے ان ہی کو فائدہ ہوگا۔ سب سے زیادہ یقین خود خواتین کو کرنے کی ضرورت ہے کہ الیکشن میں ان کا ووٹ انہیں یقینی فائدہ پہنچائے گا۔ قومی اسمبلی سے لے کر بلدیاتی انتخابات تک خواتین کی شمولیت بہت اہم ہے کیوں کہ وہ بنیادی مسائل کے بارے میں زیادہ آگہی بھی رکھتی ہیں اور ان کے حل کے لیے بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ خواتین کے خلاف صنفی تعصب ساری دنیا میں پایا جاتا ہے، لیکن پاکستان کا شمار ان چار ملکوں میں ہوتا ہے جہاں 18 سال سے 49 سال کی 49 خواتین کو پائدار ترقی کے چار شعبوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ یہ چار شعبے تعلیم تک رسائی میں رکاوٹ، شادی، صحت اور روزگار کے بارے میں فیصلے کرنے کی صلاحیت سے متعلق ہیں۔ پاکستان میں پس ماندہ ترین سندھی، سرائیکی اور پشتون خواتین ہیں۔ سندھ میں تو خواتین خوراک کی بھی کمی کا بھی شکار ہیں۔ قومی سطح پر ایسی خواتین کی شرح 13.2 فی صد ہے جب کہ سندھ میں بڑھ کر 40 فی صد ہے۔ غربت کی وجہ سے خواتین کام پر مجبور تو ہو جاتی ہیں لیکن انہیں اس کے لیے سخت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جن میں صنفی تعصب، کم مواقعے اور کم اجرت شامل ہے۔ الیکشن میں خواتین کے ووٹ کی اہمیت خواتین کو خود سمجھنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے ساتھ اپنے ووٹ کا استعمال خواتین کا حق ہے کہ جو انہیں دیگر بہت سے حقوق کی ادائیگی کا ذریعہ بنتا ہے۔ ضلع دیر میں حالیہ ہونے والے انتخابات میں لگتا ہے کہ یہ بات خواتین نے سمجھ لی تھی لہٰذا وہاں خواتین ووٹرز کا تناسب مردوں سے زیادہ رہا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ایسا 48 سال میں پہلی بار ہوا، اس ضلع میں خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ 55 فی صد جب کہ مردوں کا 52 فی صد رہا۔