چین: ایک نئی عالمگیر حکومت (حصہ دوم) 

497

سوال یہ تھا کہ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ چین پوری دنیا پر حکومت کرنے کے منصوبے پر تیزی کے ساتھ عمل پیرا ہے مگر دیکھنے میں چین کی حریف طاقتیں امریکا، یورپ اور روس وغیرہ کیوں خاموش ہیں اور انہوں نے کیوں اپنی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ یہ سوال انتہائی اہم ہے۔ تاہم اگر اسٹیج کے پیچھے جا کر ذرا ڈوری ہلانے والے ہاتھ کو دیکھ لیا جائے تو پھر اس سوال کا جواب مل جاتا ہے۔ تاریخ میں تھوڑا سا پیچھے کی طرف چلتے ہیں۔ کسی سے سوال کیجیے کہ برصغیر پر کس نے قبضہ کیا تھا تو جواب ملے گا کہ برطانیہ نے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ برصغیر پر قبضہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی ایسٹ انڈیا کمپنی نے کیا تھا۔ بعد ازاں اس کمپنی نے اپنے مفادات پورے ہونے کے بعد اپنی شرائط پر برصغیر کو برطانوی ملکہ کی عمل داری میں دیا تھا۔ اس ایسٹ انڈیا کمپنی کا مالک وہی خانوادہ روتھس شیلڈ تھا جو بینک آف انگلینڈ کا بھی مالک تھا۔ اسی خانوادہ روتھس شیلڈ ہی نے فلسطینیوں سے زمینیں خرید کر اسرائیل کی بنیاد رکھی تھی۔ اصل بات پر دوبارہ آتے ہیں یعنی برصغیر پر قبضہ سرکار برطانیہ کی افواج نے نہیں کیا تھا بلکہ بینکاروں کی پرائیویٹ آرمی نے کیا تھا۔
اب چین کے معاملات کو دیکھیں۔ یہاں پر سارے معاملات سرمایہ کاری کے ہیں اور یہ سرمایہ کاری یا سود پر قرض کون فراہم کررہا ہے؟ یہ چینی حکومت نہیں بلکہ چینی بینک ہیں۔ چینی حکومت تو خود ان بینکوں کی ٹریلین ڈالرز کی مقروض ہے۔ چینی بینک چینی حکومت کے ماتحت نہیں ہیں اور نہ ہی یہ چینی حکومت کی ملکیت میں ہیں۔ ان بینکوں کے مالکان بھی وہی ہیں جو بینک آف انگلینڈ، فیڈرل ریزرو بینک آف امریکا اور بینک آف انٹرنیشنل سیٹلمینٹ کے مالکان ہیں۔ یہی بینک مالکان امریکا، برطانیہ، کینیڈا، چین، سعودی عرب سمیت پوری دنیا کے ممالک کو قرض فراہم کرتے ہیں اور پھر ان ممالک کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اب دوبارہ اس صورت حال کو سمجھتے ہیں۔ دنیا کے سارے ممالک میں قائم حکومتوں کی ڈوریاں ہلانے والا ہاتھ ایک ہی ہے اور وہ ہے بین الاقوامی بینکاروں کا گروہ۔ یہی گروہ فیصلہ کرتا ہے کہ کب کس ملک پر جنگ مسلط کرنی ہے اور کب کس ملک کو قرض کی دلدل میں پھنسانا ہے۔ دیکھنے میں امریکا، روس اور چین الگ الگ مزاج رکھنے والی عالمی طاقتیں ہیں اور پوری دنیا کے سارے ممالک ان ہی تین ممالک کے کاسہ لیس ہیں مگر عملاً ان تینوں ممالک کو کنٹرول کرنے والا ہاتھ بھی ایک ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی جارحانہ پیش قدمی کے باوجود دیگر ممالک بھی خاموش ہیں اور ان کا کنٹرولڈ میڈیا بھی۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سارے ہی ممالک پر ان بینکاروں کا قبضہ ہے تو پھر یہ چین کو آگے بڑھانے کا کھیل کیوں؟ پوری دنیا ان کی غلام ہے تو یہ مزے سے دنیا پر حکومت کریں۔ سوال دنیا پر حکومت کا نہیں ہے بلکہ شیطانی عالمگیر حکومت یعنی نیو ورلڈ آرڈر کے قیام کا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کے قیام کے لیے ضروری ہے کہ انسانوں کو غلاموں کے درجے پر لے آیا جائے۔ ریموٹ کنٹرولڈ غلام۔ جب آقا چاہیں تو ناچیں، گائیں اور جب آقا چاہے تو ریچھوں اور کتوں کی لڑائیوں کی طرح ایک دوسرے کو چیر پھاڑ کھائیں۔ اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ ایک ایک حرمت کو توڑ دیا جائے، اس پر فخر کیا جائے اور اعلانیہ اس کے خلاف عمل کیا جائے۔ ایک اللہ کی عبادت کرنے والے معتوب ہوں اور شیطان کو ماننے والے دنیا میں باعزت ٹھیریں۔
بات پوری دنیا پر چین کے تسلط سے شروع ہوئی تھی۔ چین اس وقت ایشیا، افریقا اور جنوبی امریکا کو اپنے تسلط میں لانے کے لیے تیزی کے ساتھ مصروف عمل ہے۔ محض چند برسوں کے بعد ہی اہل پاکستان بھی سی پیک کو اس کے اصل روپ میں اسی طرح دیکھنے پر مجبور ہوں گے جس طرح ہمبنٹوٹا کی بندرگاہ کھونے کے بعد سری لنکا کے عوام اور ایک ہزار مربع کلومیٹر علاقے سے پسپائی کے بعد تاجکستان کے عوام بے بسی محسوس کررہے ہیں۔
دیکھنے میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ نیو ورلڈ آرڈر کی تکمیل کا کام چینیوں سے لینے کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔ اسی لیے چین کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ اس کی ہر خامی کو بھی خوبی بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ اس کی مخالفت کو ختم کردیا گیا ہے۔ پوری دنیا کے عوام کو مصروف رکھنے کے لیے نان ایشوز میں پھنسا کر رکھا جارہا ہے۔ روز ایک نیا شوشا چھوڑا جاتا ہے، روز ایک نیا تماشا لگایا جاتا ہے۔ کبھی روہنگیا مسلمان اچانک اسکرین پر چھا جاتے ہیں تو کبھی مشرقی غوطہ کے۔ کبھی اہل فلسطین اسکرین پر نظر آتے ہیں تو کبھی ایران میں ہونے والے مظاہرے۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے نہ تو اچانک ہوتا ہے اور نہ ہی ختم ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ آج کل روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم دنیاکی آنکھوں سے اوجھل ہیں حالاں کہ ان پر آج بھی وہی مظالم جاری ہیں جو چند ماہ قبل تھے۔ آج کل مشرقی غوطہ پیش منظر پر ہے کیوں کہ عوام کو روز ایک نئے ایشو میں مصروف رکھنا پالیسی کا حصہ ہے۔ پوری دنیا کی توجہ ان ہی ایشوز پر ہے۔ کسی کی بھی توجہ چین کی پیش قدمی کی طرف نہیں ہے۔ انفرا اسٹرکچر ایک دن میں تعمیر نہیں ہوجاتا، اس کے لیے برس ہا برس درکار ہوتے ہیں۔ آج سے پانچ برس کے بعد جب چین پورا انفرا اسٹرکچر تیار کرچکا ہوگا تو پوری دنیا میں اس کا شور ایسے مچ رہا ہوگا کہ جیسے یہ سب کچھ اچانک ہوگیا۔
میں نے 2006 میں گوادر کے بارے میں ایک ایک آرٹیکل Real Significance of Gawadar کے نام سے دی نیوز اخبار میں لکھا تھا۔ اسی وقت چین کے معاملات گوادر، ہمبنٹوٹا، چاٹگام اور پورٹ آف سوڈان کے حوالے سے واضح تھے۔ اس منصوبے کو پنٹاگون ہی نے string in the pearls کا نام دیا تھا۔ اس کے جواب میں چاہ بہار اور احمد آباد جیسے منصوبے بھارتی حکومت کی مدد سے بنائے گئے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج ہمبنٹوٹا، چاہ بہار اور گوادر جیسے منصوبوں پر جو شور مچایا جارہا ہے یہ نہ تو کوئی نئے منصوبے ہیں اور نہ ہی یہ خفیہ تھے۔ یہ سارے کے سارے منصوبے سب کے علم میں تھے۔ بس انہیں عام شہریوں سے مخفی رکھا گیا تھا۔ اب چین کی جاری پیش قدمی کی بھی یہی صورت حال ہے کہ اس میں کچھ بھی خفیہ نہیں ہے مگر اس پر گفتگو کہیں نہیں ہے۔
اب سمجھ جانا چاہیے کہ ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی والا چین اس کہاوت سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ معاملات چین کے عوام کے ہاتھ میں نہیں رہے بلکہ یہ چین کے بینکوں کے ہاتھ میں جاچکے ہیں اور ان چینی بینکوں کے مالکان بھی وہی ہیں جو بینک آف انگلینڈ اور فیڈرل ریزرو آف امریکا کے ہیں۔ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب صرف اور صرف اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام ہے۔ یہ عام بادشاہت سے مختلف چیز ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔