کرپشن کا اژدھا اور چند عدالتیں 

347

عدالتیں آزاد ہیں لیکن ان کے احکامات آزاد نہیں، آئے دن توہین عدالت کے مقدمات سامنے آتے رہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ چند چھوٹے قد کے سیاست دان اپنا قد بڑھانے اور میڈیا میں مفت کی انٹری کے لیے جان بوجھ کر توہین عدالت کرتے ہیں جو شاید ان کی قیادت کی منشا کے مطابق ہی ہو اس طرح وہ ایک تیر سے دو شکار کرتے ہیں اس دانستہ جرم کا ارتکاب سیاست میں پہلی انٹری کا استعارہ بن چکا ہے اور جو سیاست دان سیاست میں اپنے قدم جما چکے ہیں وہ انہی ممولوں کو اپنے بیانات کے ذریعے مزید انگیخت کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن بات توہین عدالت سے بڑھ کر توہین عورت تک جا پہنچتی ہے اور اسلامی اور مشرقی اقدار کی حرمت سے عاری یہ سیاست دان کھلے بندوں گھر کی خواتین کی شان میں گستاخیاں کرنے سے بھی نہیں چوکتے چاہے وہ کتنی ہی پاک دامن اور پابند صوم صلوٰۃ اور پردے میں رہنے والی ہی کیوں نہ ہو۔ اس پچ پر سب سے اچھی بیٹنگ ابھی تک ن لیگ ہی کرتی رہی ہے اب تو اس کو مسلم لیگ لکھنے کو دل ہی نہیں چاہتا۔ کرپشن، بدعنوانیوں، قومی خزانے کی لوٹ مار، زمینوں پر ناجائز قبضوں، غیر قانونی احکامات کے ذریعے سرکاری املاک پر ہاتھ صاف کرنے، ملک کی دولت لوٹ لوٹ کر مغرب کے بینکوں کا حجم بڑھانے، بے دریغ اقاموں کی بارش، ناجائز بھرتیوں، ناجائز ترقیوں، کونسلر سے لیکر سینیٹ تک کی نشستوں کی لاکھوں کروڑوں میں خرید و فروخت اور اسی طرح کے بد ترین کار گزاریوں کے سبب ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ گیا ہے ایک پتھر اٹھاؤ تو نیچے سے دس بدعنوان افسران و سیاست دان برامد ہوتے ہیں۔ اب جب کہ مقتدر حلقوں اور فاضل عدالتوں نے ملک سے ان ناسوروں کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیا ہے تو ابتدائے عشق میں ہے، حالت یہ ہو گئی ہے کہ عدالتوں میں کیس سننے کے لیے جج کم پڑنے لگے ہیں اور فائلوں اور رپورٹوں کے انبار لگنے شروع ہو گئے ہیں جن کو نمٹانے میں دس بیس سال بھی کم نظر آ رہے ہیں ایسے میں ایک عام سائل عدالتوں کے چکر ہی کاٹتا رہے گا اور اس کے کیس کی تاریخ کب لگے کی یہ اس کے لیے سوھانِ روح سے کم نہیں۔ کچھ دبی دبی آوازیں بھی اس ضمن میں آنے لگی ہیں کہ اگر بد عنوان سیاست دانوں جن کی ایک غیر اعلانیہ انجمن بن چکی ہے اور پچھلے دروازے کے روابط آج تک قائم و دائم ہیں ابھی یہ سطور زیر تحریر ہی تھیں کے پیپلز پارٹی کے ترجمان جناب فرحت اللہ بابر کا پالیسی بیان سامنے آ گیا ان کے اس بیان سے ایک نہیں کئی بلیاں تھیلے سے باہر آگئیں جس میں انہوں نے بنیادی طور پر عدالت پر خفگی کا اظہار کیا جب کہ اس خفگی یا دھمکی میں خوف کا عنصر بھی نمایاں تھا کہ ابھی جس لاٹھی کا رخ ن لیگ کی طرف ہے کل کو وہی ان کی طرف بھی ہو سکتی ہے۔ فرما رہے ہیں کہ کہیں 2018 کے انتخابات عدلیہ کے خلاف ریفرنڈم ثابت نہ ہو جائیں۔ شاید ان کو اس حقیقت کا علم ہے کہ آصف علی زرداری جتنے بھی مقدمات سے بری ہوئے یا ضمانت حاصل کی ان کی حقیقت کیا ہے اور یہ کہ آج میاں صاحب کے لندن فلیٹوں کی ملکیت کی چھان بین ہو رہی ہے تو کل سرے محل بھی اسی لاٹھی کی زد میں آ سکتا ہے، ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کا احتساب سے خوفزدہ ہونا ویسے تو ملک و قوم کے لیے کوئی فرحت بخش خبر نہیں ہو سکتی مگر عوام کے دل کی آواز ضرور ہے کہ احتساب سب کا بلکہ کڑاکے کا۔ ہماری دانست میں جب تک بے رحمانہ احتساب کا کوڑا نہیں برسایا جائے گا اس وقت تک ملک کو کرپشن بد عنوانی اور دیگر جرائم سے چھٹکارا نہیں دلایا جا سکے گا کیوں کہ بلدیاتی اداروں سے لیکر وفاقی اداروں تک ہر ہر ادارہ ایک تعفن زدہ حمام کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اب تو کرپشن بد عنوانی لوٹ مار کے اتنے انداز پیدا کر لیے گئے ہیں کہ ڈکشنریوں میں الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔ اگرچہ کہ عوام کو دھوکا دینے کے لیے اختلاف کا طوفان برپا اور الزامات کا طومار کھڑا کر رکھا ہے لیکن عوام اتنے سادہ بھی نہیں بے بس ضرور ہیں
فرحت اللہ بابر کے بیان کا وقت بہت اہمیت کا حامل ہے انہوں نے یہ بیان دیا ہی تھا کہ رانا ثنا اللہ کیا بیان میڈیا کی زینت بن گیا یہ وہی راثنا اللہ ہیں جن کے لیڈر آصف زرداری کا پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی رقم قوم کو لوٹا رہے تھے مگر آج خود مقدمے کے گرداب میں پھنسنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
ابھی تو شروعات ہیں کہ عدالتوں کے پاس دیگر مقدمات کو سنے کا وقت ہی نہیں ملتا ایسے میں عوام جن کے روز مرہ کے مقدمات فاضل جج حضرات کی ٹیبل کی زینت بنے ہوئے تاریخ لگنے کا انتظار کر رہے ہیں جب کہ منصفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایک ایک مقدمے کو نمٹانے میں پچیس پچیس سال لگ جا تے ہیں ایسے میں انسانی اعصابی طاقت کا بھرپور امتحان لیا جاتا ہے کہ اعصاب شکن مقدمات کی طوالت مدعی یا مدعا علیہ کو قبر کی کود تک پہنچا دیتی ہیں ابھی تو ان مقدمات کی بھرمار ہے جو اعلیٰ افسران اور بڑے سیاست دانوں کے کارناموں کی بدولت عدالتوں میں پہنچے ہیں مگر یہی کام اگر کونسلر اور پٹواری کی سطح پر کرپشن اور بدعنوانیوں کے مقدمات قائم کیے جائیں گے تو عدالتوں میں فائلوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوں گے پھر ایسے میں عام سائل کی داد رسی کون کرے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی صورت حال میں جو آنی ہی ہے کیا لائحہ عمل بنایا جائے اس کے لیے یہی کیا جا سکتا ہے کہ نیب کے دفاتر کو نچلی سطح پر وسعت دی جائے اور اسی کے ساتھ مجسٹریٹ کی سطح کی عدالتیں قائم کی جائیں جن کی معاونت ایف آئی اے اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے کریں اور کرپشن کے مقدمات کی سماعت کریں اسی طرح شہر اور صوبائی سطح پر نیب اور ایف آئی اے دیگر ایجنسیوں کی مدد سے کرپشن اور بد عنوانی اور سرکاری مال میں خورد برد کی چھان بین کریں اور انہی عدالتوں میں ان مقدمات کی سماعت ہوتی رہے جب کہ موجودہ عدالتیں اپنا کام کرتی رہیں تاکہ انصاف کی راہ میں یہ کرپٹ مافیا نہ آنے پائے ان ججوں کے اختیارات بھی بالکل وہی ہوں جو موجودہ عدالتوں کے ججوں کے ہیں اس طرح ایک طرف تو قوم کو یہ امید ہو چلے گی کہ اب ملک سے کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک الگ سے مستقل عدالتی نظام کام کر رہا ہے جو
چند سال میں کافی حد تک بد عنوان سرکاری افسران سیاست دانوں کو پابند سلاسل کر چکی ہوں گی اور قوم ان چوروں کو اچھی طرح پہچان لے گی اور دنیا یہ بھی جان لے گی کہ پاکستان میں انصاف ہر سطح پر برابر ی کی بنیاد پر فراہم کیا جا رہا ہے اور کسی چھوٹے بڑے کی تمیز کیے بغیر سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جا رہا ہے پھر غریب اور امیر کے لیے انصاف کی تعریف الگ کا شکوہ بھی نہیں رہے گا جب تک ان بدعنوان عناصر کو قرار واقعی سزائیں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہیں دی جائیں گی اس وقت تک کرپشن کا یہ ناگ پھن پھیلائے قوم کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ اپنے اسٹرکچر کے مطابق کام کر رہی ہیں بالکل اسی طرح ایک اور سیٹ اپ بنایا جائے جو خالصتاً کرپشن کے خاتمے کے لیے ہو اور اسے عدالت عظمیٰ کی سطح سے ضلعے کی سطح تک قائم کیا جائے تاکہ لوٹ مار کے مقدمات تیزی کے ساتھ نمٹائے جاتے رہیں پھر کسی کو بھی کرپشن لوٹ مار سرکاری مال میں خورد برد کرنے کی جرات نہیں ہوگی۔