شام کا المیہ (آخری حصہ) 

498

شام میں انسانی المیہ وجود میں لانے میں اندرونی عوامل سے زیادہ بیرونی عوامل کا ہاتھ ہے۔ معمر قذافی اور صدام حسین پر لاکھ الزامات لگالیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک عراق میں صدام حسین اور لیبیا میں معمر قذافی موجود تھے، اس وقت تک وہاں پر دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ امن اور سکون تھا۔ ان کے بعد یہ وقت آگیا ہے کہ ان ممالک کی عورتوں اور بچوں کو اغوا کرکے باقاعدہ انسانی منڈی میں فروخت کیا گیا اور قحبہ گھروں کی زینت بنادیا گیا ہے۔ اب نہ جان محفوظ ہے اور نہ مال۔ اس کا آسان سا مطلب یہ ہے کہ شام میں انسانی المیے کے ذمے دار وہ ہیں جنہوں نے شام میں بیرونی مداخلت کی اور اسے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں کو کس نے یہ حق دیا ہے کہ چاہے جس ملک پر چڑھ دوڑیں اور اسے تباہ کرکے رکھ دیں۔ عراق اور لیبیا کے عوام آمریت میں خوش بھی تھے اور زندہ بھی۔
یہ اہم ترین سوال ہے کہ اس وقت مغربی میڈیا پر صرف اور صرف شام ہی کیوں چھایا ہوا ہے؟ پورا مغربی میڈیا جس طرح شام کو فوکس کیے ہوئے ہے۔ درست، غلط، آدھے سچ اور آدھے جھوٹ پر مبنی خبریں، ٹیلی وژن پیکیج اور سوشل میڈیا پر مہم جس طرح جاری ہے، اسے دیکھ کر کوئی بھی شخص اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس اسموک اسکرین کو کسی بڑے مقصد کے حصول کے لیے کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ مقصد کیا ہوسکتا ہے؟ اس سوال کو بوجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سوال سے پہلے ایک اور سوال کہ آخر شام پر یہ جنگ مسلط ہی کیوں کی گئی۔ پہلے بہار عرب کا سلسلہ شام تک وسیع کیا گیا اور اس کے تحت مظاہرے کروائے گئے۔ پھر ان مظاہروں کو شامی سرکار کے ہاتھوں خون سے رنگ دیا گیا۔ اس کے بعد ان مظاہرین کی مدد کے نام پر بیرونی قافلے شام میں اترنے لگے۔ اس سوال کے کئی جوابات ہوسکتے ہیں۔ ایک جواب یہ بھی ہے کہ شام نے قطر سے 1500 کلومیٹر ایک پائپ لائن ڈالنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس سے امریکی مفادات پر ضرب پڑ رہی تھی اس لیے شام کو اس کی سزا دی گئی ہے۔ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ ترکی شام کے علاقے روجاوہ کو ایک خودمختار علاقہ بنانا چاہتا ہے تاکہ کردوں کے ساتھ اس کا مسئلہ حل ہو سکے۔ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و نفوذ کا خاتمہ چاہتا ہے اس لیے سعودی عرب اور اس کی حلیف ریاستوں نے شام میں اقلیتی شیعہ حکومت کا خاتمہ کرنے کی ٹھان لی۔ اس کا ایک جواب یہ بھی ہے کہ روس اس خطے میں اپنی پرانی حیثیت کی بحالی چاہتا ہے اور امریکا اس کی مزاحمت کررہا ہے۔ اس لیے شام میدان جنگ بنا ہوا ہے۔
یہ تمام جوابات وہ ہیں جو مسئلہ شام کے حوالے سے مختلف فورم پر پیش کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ان عوامل کی بناء پر شام میں بیرونی عوامل کارفرما ہیں۔ یہ جواب ایک عام فرد کے لیے تو تسلی بخش ہوسکتے ہیں مگر جو لوگ بھی بین الاقوامی تعلقات کو جانتے بوجھتے ہیں ان کے نزدیک یہ محض معاملات کو دوسرا رخ دینے کی کوشش ہیں۔ مثال کے طور پر تیل کا عنصر کہیں پر بھی مفاد کی جنگ میں شامل نہیں ہے۔ اب یہ بات راز نہیں رہی ہے کہ پوری دنیا کے تیل کے وسائل محض سات کمپنیوں کی ملکیت ہیں، جنہیں سیون سسٹرز کہا جاتا ہے اور ان کمپنیوں کے مالکان بھی مشترک ہیں۔ یہ تیل و گیس کے وسائل چاہے عراق کے ہوں، سعودی عرب کے، امریکا کے ہوں، ایران کے یا روس کے یا پھر پاکستان کے، ان کی مالک یہی سات کمپنیاں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ یہ تیل کی جنگ ہے، دنیا کو احمق بنانے کے لیے ہے۔ اسی طرح کی حیثیت دیگر دو جوابات کی بھی ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے کہ اہل شام پر جنگ مسلط کردی گئی۔
اس کا جواب ہمیں نیو ورلڈ آرڈر سے ملتا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر کا مطلب ہے دنیا پر ایک عالمگیر حکومت کا قیام۔ اس عالمگیر حکومت کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک پوری دنیا کی اقوام کو غلام نہ بنا لیا جائے۔ غلام بنانے کا سب سے پرانا نسخہ قرض کے بوجھ تلے دبا دینا ہے اور قرض تلے دبانے کا آسان ترین نسخہ جنگ ہے۔ اب دوبارہ سے صورت حال کو دیکھیے کہ شام کی جنگ میں کتنے ممالک ملوث ہیں۔ شام کے علاوہ ترکی، اردن، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور ایران۔ اس جنگ سے ان ممالک کی معیشت پر کیا اثرات رونما ہورہے ہیں، اسے جاننے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے فائدے میں کون ہے۔ اسلحہ اور جنگی سامان بنانے والے۔ ایک مرتبہ پھر سے سمجھیں کہ تیل کے وسائل کی طرح پوری دنیا میں بھی اسلحہ اور جنگی سامان بنانے والی کمپنیوں کے مالکان بھی ایک ہی ہیں۔ جی ہاں چاہے امریکا ہو یا روس یا اسرائیل۔ یہاں پر اسلحہ بنانے والی کمپنیوں کے مالکان بھی مشترک ہیں۔ اس سے کیا ہورہا ہے۔ جو ممالک متاثر ہیں یا ملوث ہیں وہ بینکوں سے قرض لے رہے ہیں اور اسلحہ لے کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کررہے ہیں۔ قرض دینے والے بینک اور اسلحہ بنانے اور فروخت کرنے والی کمپنیوں کے مالکان مشترک ہیں اور ان کی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں۔
بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس بھی آگے کی ہے کہ یہی مالکان ان عالمی سازش کاروں کے گروہ میں شامل ہیں جو دنیا میں ایک عالمگیر شیطانی حکومت کا قیام چاہتے ہیں۔ ان کا یہ مشکل کام صرف ہلّا شیری ہی سے چل رہا ہے۔ ایک ساتھ کئی ممالک کو غلام بنانے کا عمل کامیابی سے جاری ہے۔
اصل سوال تھا کہ اس وقت شام یا غوطہ کی اسموک اسکرین کیوں کھڑی کی گئی ہے اور اس کے پیچھے کیا ہورہا ہے۔ شام میں پیدا کیے جانے والے انسانی المیے کی اسموک اسکرین کے پیچھے کسی کو نہیں معلوم کہ اسرائیل لبنان پر حملے کے لیے کیا تیاریاں کررہا ہے۔ اب اس کا کہیں پر ذکر نہیں ہے کہ یمن کی صورت حال کیا ہے اور یمن میں اب مزید کیا ہونے جارہا ہے۔ شمالی یمن اور جنوبی یمن کی دوبارہ تقسیم کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اس کے کیا نتائج ہوں گے۔ اس کا بھی کہیں پر ذکر نہیں ہے کہ سعودی عرب میں اندرونی بے چینی کی کیا صورت حال ہے اور وہاں پر بہار عرب قسم کی کوئی تحریک کب برپا کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ یہ جان لیجیے کہ ایک مرتبہ پھر سے پورے عرب کی نئی جغرافیائی حد بندی مطلوب ہے۔ غوطہ کی اسموک اسکرین اصل معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے کھڑی کی گئی ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشو ں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔