جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی اور کلینیشین کے مابین مفاہمتی یاد داشت پر دستخط

510
کلینیشن کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود جاوید ای ٹرائل کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں۔ اس موقع پر ان کے ساتھ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد طارق رفیع، کلینیشن کے سربراہ جمشید احمد، پرو وائس چانسلر پروفیسر لبنیٰ انصاری بیگ بھی موجود ہیں۔

کراچی (اسٹاف رپورٹر) جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر طارق رفیع نے کہا ہے کہ مقامی بیماریوں پر ریسرچ اور اعداد و شمارنہ ہونے کی وجہ سے مختلف جان لیوا بیماریوں کے علاج معالجے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں، پاکستان میں منہ کا کینسر اور چھالیہ کی وجہ سے ہونے والی منہ کی بیماریاں انتہائی تیزی سے بڑھ رہی ہیں مگر یورپ اور امریکا سے آنے والے میڈیکل لٹریچر میں اس کا کوئی ذکر نہیں، پاکستان میں کسی بھی بیماری کی کوئی قومی رجسٹری موجود نہیں ہے، خاص طور پر کینسر سے متعلق کوئی مصدقہ اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی مختلف بیماریوں، ان کے اسباب اور سد باب پر ریسرچ شروع کرنے جا رہی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ایک مقامی تحقیقی ادارے کلینیشین (Clinision) کے ساتھ مفاہمتی یاد داشت پر دستخط کرنے کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے، اس معاہدے کے تحت کلینیشین جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کو تحقیق کرنے کے لیے الیکٹرانک سافٹ ویئر ”ای ٹرائلز“ کی فراہمی، ماہرین کو تربیت اور تکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔ اس موقع پر پرو وائس چانسلر جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی پروفیسر ڈاکٹر لبنیٰ بیگ، کلینیشین کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر جمشید احمد، کلینیشین کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود جاوید بھی موجود تھے۔ پروفیسر طارق رفیع نے بتایا کہ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی جلد ہی پیپر لیس یونی ورسٹی میں تبدیل ہو جائے گی، جہاں پر ایم بی بی ایس کے امتحانات کمپیوٹر کے ذریعے منعقد کیے جائیں گے، جس سے نہ صرف نقل کا خاتمہ ہوگا بلکہ مستقبل کے ڈاکٹروں میں ٹیکنالوجی کے استعمال کا رجحان بھی بڑھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی ریسرچ کے کلچر کو پروان چڑھانے کے لیے اپنے اساتذہ اور طلبہ کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہے جب کہ وہ اساتذہ جن کا پورے سال ایک بھی ریسرچ پیپر شائع نہیں ہوتا، انہیں سالانہ انکریمنٹ سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ڈاکٹر طارق رفیع نے افسوس کا اظہار کیا کہ مقامی اور غیر ملکی دوا ساز ادارے مقامی بیماریوں اور دوائیوں کے مریضوں پر اثرات سے متعلق پاکستان میں کوئی ریسرچ نہیں کر رہے۔ انہوں نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ مقامی دوا ساز کمپنیوں کو پاکستان میں ریسرچ کرنے اور مقامی اعداد و شمار جمع کرنے پر مجبور کرے تاکہ اس سے بیماریوں کا بہتر طریقے سے خاتمہ اور تدارک کیا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی نے اپنا ریسرچ کا شعبہ قائم کر لیا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ عالمی معیار کی تحقیق کرنے اور عوام الناس کو فائدہ پہنچانے کے قابل ہو جائے گا۔ کلینیشین کے سربراہ جمشید احمد کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ پاکستان میں صحت کے شعبے میں ریسرچ کے کلچر کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے اور جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی پہلا ادارہ ہے جسے ان کی کمپنی کی جانب سے ای ٹرائلز نامی سافٹ ویئر مفت فراہم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ریسرچ کے فروغ کے لیے دوا ساز کمپنیوں سے حاصل شدہ کروڑوں روپے کا فنڈ موجود ہے جس میں سے جناح سندھ میڈیکل یونی ورسٹی کو معیاری ریسرچ پروجیکٹس کے لیے فنڈز حاصل کرنے میں ان کا ادارہ معاونت فراہم کر سکتا ہے۔ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر لبنیٰ بیگ نے کہا کہ ان کی یونی ورسٹی پہلے ہی پاکستان بھر میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کے خلاف ہونے والے تشدد کے حوالے سے تحقیق کر رہی ہے اور پاکستان کے ہر شہر اور قصبے سے اعداد و شمار جمع کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ای ٹرائلز کے ذریعے انہیں یہ اسٹڈی وقت سے پہلے اور بہتر طریقے سے مکمل کرنے میں مدد ملے گی۔ کلینیشین کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مسعود جاوید کا کہنا تھا کہ ان کا ادارہ ای ٹرائلز نامی جو سافٹ ویئر یونی ورسٹی کو فراہم کر رہا ہے وہ امریکی ادارے ایف ڈی اے سمیت عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی اداروں سے تصدیق شدہ ہے جس کے نتیجے میں یونی ورسٹی میں تحقیق کے شعبے میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔