پروفیسر صاحب کاگیلڑ

577

اردو کے کتنے ہی الفاظ ایسے ہیں جواب متروک اور معددم ہوتے جا رہے ہیں۔ کبھی کبھی کہیں استعمال ہوں تو لوگ حیران ہو کر پوچھتے ہیں یہ کیا ہے یعنی ’’کس بلا کا نام ہے۔‘‘ ایسا ہی ایک لفظ ’’گیلڑ‘‘ ہے جو پروفیسر عنایت علی خان نے زندہ کیا ہے۔ عین 23 مارچ کو شائع ہونے والے ان کے کالم ’ربر کی تکمیل‘ میں انہوں نے ایک شعر میں اسے استعمال کیا ہے یعنی:
بنی بن کر بنی گالا میں ویدر گرل آئی ہیں
نہ خود آئی ہیں بلکہ تین گیلڑ ساتھ لائی ہیں
ہم نے ازراہ تفنن پروفیسر صاحب کے اس گیلڑ کے بارے میں اپنے ساتھیوں سے پوچھا لیکن کسی کو معلوم ہی نہ تھا۔ ہمیں اس لیے معلوم تھا کہ جب ہم اسکول میں پڑھتے تھے تو یہ ایک عزیز نے یہ قصہ سنایا تھا کہ ایک رانگڑھ عدالت میں کسی کی گواہی دینے گیا تو جج صاحب نے پوچھا کہ تم ملزم کے کیا لگتے ہو؟ اس نے کہا، یہ میرا گیلڑ ہے۔ جج صاحب کو بھلا کیا معلوم کریہ کیا ہوتا ہے چنانچہ انہوں نے اس کا مطلب پوچھ لیا۔ اس شخص نے جج صاحب کو بتایا ’’جے کر (جیسے) تیرا باپ مر جاوے اور تیری ماں میرے باپ سے شادی کرلے اور تو اپنی ماں کے ساتھ آجائے تو تو میرا گیلڑ ہوا‘‘۔
جج نے گھبرا کر کہا بس بس میں سمجھ گیا اور آج اس بات پر شکر کر رہا ہوں کہ میری ماں بھی فوت ہو چکی ہے۔ سو اس طرح ہمارے علم میں یہ گیلڑ آگیا تھا۔ ویسے ہمارے خاندان میں بھی اس کی ایک مثال ہے لیکن وہ گیلڑ نہیں کہلائی۔ اب تو یہ لفظ لغت ہی میں رہ گیا ہے۔ ہم نے جو مطلب بتایا اس پر اعتبار نہ کرتے ہوئے ہمارے ساتھی نے لغت سے رجوع کیا جس کے مطابق گیلڑ ہندی کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے پہلے خاوند کا وہ بچہ جسے عورت اپنے ساتھ دوسرے خاوند کے ہاں لائی ہو۔ تب ان کو تسلی ہوئی۔ اچھا اگر ساتھ آنے والی لڑکی ہوئی تو کیا اسے ’’گیلڑی‘‘ کہیں گے؟ اس پر پروفیسر عنایت علی خان ہی روشنی ڈالیں۔
استاد محترم نے اپنے مضمون میں گیلڑ کے آگے ’ھ‘ (دو چشمی ہ) بھی لگا دی تھی۔ لیکن گیلڑ ایک ہو یا ایک سے زائد، دو چشمی کی ضرورت نہیں اور اگر تین ہوں جیسے کہ عنایت علی خان کے شعر میں ہیں تو پھر دو چشمی نہیں ’’سہ چشمی ہ‘‘ لگنی چاہیے۔ چلیے، پروفیسر صاحب کی وجہ سے گیلڑ تو بہت لوگوں تک پہنچ گیا۔ ایسے الفاظ جن کا استعمال بہت کم ہو گیا یا بالکل ہی متروک ہو گئے، انہیں زندہ کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ اردو میں رائج الفاظ تو غائب ہوتے جا رہے ہیں اور انگریزی کے الفاظ بڑھتے جا رہے ہیں۔ جس پر ایک شاعر نے کہا تھا ’’اے مرے دل، تو بھی کیا اردو زباں ہو جائے گا۔‘‘ دوسرا ستم، اور زیادہ شدید، یہ ہے کہ اردو کے الفاظ کا املا اور استعمال بری طرح بگڑ رہا ہے جیسے ایک خبر میں دیکھا ’’بے قصوری کا ثبوت دیں‘‘۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ جب بے گناہی ہے تو بے قصوری کیوں نہیں۔ اس پر احمد رضا قصوری کو اعتراض ہو تو ہو ملکۂ ترنم تو کب کی آنجہانی ہوئیں جن کو قصوری ہونے کا دعویٰ تھا۔ لیکن ایک مزاح نگار اصغر خان (یہ وہ ہوائی خان نہیں) اپنی کتاب اصغر خان کی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ وہ نور جہاں کا مکان دیکھنے قصور پہنچے اور ایک بزرگ سے پتا معلوم کیا تو اس نے برا سا منہ بنا کر کہا شہر سے باہر چلے جاؤ، وہاں کنجراں دا پنڈ ہے، وہیں رہتی تھی۔ کنجر کا لفظ جتنا برا سمجھا جاتا ہے اتنا برا نہیں ہے کیونکہ میرتقی میر کا شعر ہے:
میر صاحب اس طرح سے آتے ہیں
جیسے کنجر کہیں کو جاتے ہیں
شعر پڑھ کر حیرت ہوئی کہ میر صاحب خود کو کیا کہہ رہے ہیں لیکن کنجر کا مطلب ہے ’’خانہ بدوش‘‘۔ میر صاحب نے انہی معنوں میں استعمال کیا ہے لیکن اب خانہ بدوش کو بھی کنجر کہیں تو وہ لڑ پڑے گا۔
پروفیسر عنایت علی خان نے ریحام خان کو ویدر گرل کہا ہے یعنی ’’موسمی خاتون‘‘ گرل تو وہ اس وقت بھی نہیں تھیں اور موسم تو پل پل بدلتا ہے۔ ہواؤں کے رخ پر اپنا رخ موڑ لینے والے یا والی کو ’’مرغ باد نما‘‘ بھی کہتے ہیں، مونث کے لیے مرغی کہنا چاہیے۔ حسرت موہانی نے تو متروکات سخن پربڑی تفصیل سے بات کی ہے لیکن اس میں گیلڑ کا کوئی ذکر نہیں۔ بہرحال عنایت علی خان نے گیلڑ کا احیا کر دیا۔ بنی اور بنی گالا میں نسبت بھی خوب ہے۔ لگتا ہے عمران خان نے نام کی وجہ سے اس جگہ کا انتخاب کیا ہے کہ ہمیشہ بنی رہے۔