حماس کی نئی تحریک 

208

اندیشوں کے عین مطابق حماس کی تحریک کا آغاز فلسطینیوں کے خون سے ہوا ہے۔ مظاہرے کے پہلے دن ہی سفاک اسرائیلی فوج نے مظاہرین پر اندھا دھند فائرنگ اور آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے 14فلسطینی شہید اور 12 سو سے زاید زخمی ہوگئے۔ مظاہروں کا یہ سلسلہ اپنی کھوئی ہوئی زمین کو واپس لینے کے لیے شروع کیاگیا ہے۔ 30 مارچ کو شروع ہونے والی تحریک ڈیڑھ ماہ یعنی 14 مئی تک جاری رہے گی۔ اہل فلسطین ہر برس 30 مارچ کو یوم الارض مناتے ہیں۔ 1976 میں اس روز اسرائیل نے فلسطینیوں کی مزید زمینوں پر قبضے کے ذریعے توسیع پسندی کا آغاز کیا تھا۔ حماس نے یہ مظاہرے اپنے یوم الارض پر شروع کیے ہیں تاہم اس برس 30 مارچ جمعہ کو پڑا جو عیسائیوں کے سب سے بڑے تہوار ایسٹر سے پہلے والا جمعہ ہے اور اسے وہ گڈ فرائیڈے کے نام سے تہوار کے طور پر مناتے ہیں۔ اسی روز یہودیوں کا بھی تہوار پاس اوور تھا۔ حماس کی تحریک کا آخری دن 14 مئی ہے جو یوم نکبہ ہے۔ 1948 میں اسی تاریخ کو اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا تھا۔ عبرانی کیلنڈر کے لحاظ سے اس برس اسرائیل کا یوم آزادی 19 اپریل کو پڑے گا۔ حماس کی اس تحریک کا اعلان گزشتہ برس دسمبر میں کیا گیا تھا اور اس کی تیاریاں جاری تھیں۔ اسرائیل نے بھی ان مظاہروں سے نمٹنے کے لیے خصوصی تیاریاں کی ہیں جن میں فوج کو نہتے اور پرامن مظاہرین کو مارنے کی خصوصی اجازت دی گئی ہے۔ مظاہرین کو فلسطین کے اندر ہی مارنے کے لیے خصوصی طور پر ڈرون تیار کیے گئے ہیں۔ ان خصوصی ڈرون طیاروں کے ذریعے تاک تاک مظاہرین پر آنسو گیس کی شیلنگ بھی کی جائے گی۔
اہل فلسطین پر اسرائیلی مظالم کوئی نئی بات تو نہیں مگر ہر روز ان کی سفاکی کے درجے میں ضرور اضافہ ہوجاتا ہے۔ تاہم اس مرتبہ اسرائیلی حکومت کا موقف ہے کہ حماس کی تحریک کو نہ صرف سختی سے کچل دیا جائے بلکہ اس کی کمر ہی توڑ دی جائے کہ وہ دوبارہ سر اٹھانے کے قابل نہ رہے۔ حماس کی جانب سے تحریک کا اعلان اور اس کو کچلنے کے لیے اسرائیلی تیاریاں۔ کیا معاملات اتنے ہی سادہ ہیں؟ عرب دنیا کے معاملات کو دیکھیے تو روز پیاز کی ایک نئی پرت اترتی ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی قیادت میں متحدہ عرب امارات کی اسرائیل سے بڑھتی پینگیں، ٹرمپ کی قیادت میں امریکی اتحادیوں کی اسرائیل پر بڑھتی نوازشیں، یمن کے جنگی بھنور میں سعودی عرب کی ڈوبتی کشتی کے تناظر میں عرب و ایران رسہ کشی۔ ان سب کے تناظر میں حماس کی نئی تحریک کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات اندازوں سے کہیں زیادہ سنگین ہیں۔
فلسطین میں کیا ہونے جارہا ہے، اس کا تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سمجھنے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے کہ جنگ کرنے کے لیے طویل مدتی تیاریوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ خطہ عرب کو دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ تیاریاں زور شور سے کئی برس سے جاری ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں امریکی اور یوروپی ساختہ اسلحے کے ڈھیر لگ چکے ہیں۔ ایران اور اس کے اتحادیوں کے پاس روسی و چینی ساختہ اسلحے کے ڈھیر موجود ہیں۔ شام اور یمن میں ہونے والی پراکسی وار میں طرفین کے زخم بھی ابھی تازہ ہیں۔
اب خطے میں موجود صف بندی کو دیکھتے ہیں۔ اسرائیل کی شمالی سرحد پر واقع غزہ میں حماس واحد مزاحمتی قوت ہے۔ تنظیم آزادی فلسطین اور دیگر تنظیمیں اسرائیل کے اثر میں آچکی ہیں۔ حماس کی خالق اخوان المسلمون مصر میں گرداب میں ہے۔ اخوان کی حکومت کے خلاف سعودی عرب و اتحادیوں اور امریکا و اتحادیوں کی حمایت و مدد سے سیسی انقلاب لایا گیا۔ اس کی بناء پر حماس اپنے قدرتی اتحادی سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے فاصلے پر ہے۔ اسرائیل کی جنوبی سرحد پر واقع لبنان میں مزاحمتی قوت حزب اللہ ہے۔ اس کا خالق شام ہے اور یہ ایران اور اتحادیوں کی مدد سے ایک بہتر پوزیشن میں ہے۔ اب تک یہ اسرائیل سے دو بار جنگ میں اپنی قوت آزما چکی ہے۔ اسرائیل سے آخری مرتبہ پنجہ آزمائی 2006 میں ہوئی تھی۔ جب سے لے کر اب تک اسرائیل اور حزب اللہ دونوں ایک دوسرے کے خلاف تیاریوں میں مصروف ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سرپرستی ختم ہونے کے بعد حماس لامحالہ طور پر ایرانی گروپ میں شامل ہوچکی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حزب اللہ اور حماس اتحادی کیمپ میں شامل ہیں۔ یہ طے کیا جاچکا ہے کہ حماس پر حملے کی صورت میں حزب اللہ بھی جنگ میں شامل ہوجائے گی۔ یہ پہلی مرتبہ ہوگا کہ اسرائیل اپنی شمالی و جنوبی دونوں سرحدوں پر بیک وقت جنگ کرے گا۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے سرپرست 1967 کی طرح کی ایک جنگ چاہتے ہیں جس میں انہیں فیصلہ کن نتائج مل سکیں۔ اسرائیل ایسی کسی بھی جنگ کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اپنی شمالی و جنوبی سرحدوں پر صف بندی بھی کرچکا ہے۔
اس پس منظر کو دیکھنے کے بعد دوبارہ سے معاملات کو دیکھیے۔ فلسطین اور لبنان میں ہونے والی جنگ کی آگ صرف اسی خطہ تک محدود نہیں رہے گی۔ پہلی مرتبہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی اسرائیل کی صف میں نظر آئیں گے۔ دشمن کا دوست دشمن ہے، اس قول کے مصداق دشمن کو اس کے گھر میں تنگ کرنے کے لیے حزب اللہ کا یمنی بازو انصار اللہ کام آئے گا اور سعودی عرب کے ساتھ یمن کی سرحد پر ایک مکمل جنگ ہرگز خارج از امکان نہیں ہے۔ جنگ کبھی بھی فائدہ مند نہیں ہوتی، خاص طور سے جب اپنے ہی آپس میں دست و گریبان ہوں۔ یہ سب جاننے کے لیے نہ تو تاریخ کے اوراق پلٹنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی بزرجمہر کی معاونت کی۔ سب کچھ بہت ہی سادہ ہے۔
دوبارہ سے یہ بات سمجھ لیں کہ اقوام کو غلام بنانے کے لیے جنگیں بہترین ہتھیار ہیں۔ اس تناظر میں عرب دنیا کا جغرافیہ تبدیل کرنے کی سازش کو دوبارہ سے دیکھیں تو بہت کچھ سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ آنے والے دن کچھ اچھے نہیں ہیں۔ حالات کس کروٹ پر جارہے ہیں۔ اس بارے میں بوجھنے کی کوشش آئندہ آرٹیکل میں کرتے ہیں۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔