الیکٹرک۔ آئس برگ کا ایک سرا

358

یہ بات زیادہ پرانی نہیں ہے۔ دس برس قبل کی بات ہے جب میں نے نیو ورلڈ آرڈر پر کام شروع کیا تھا۔ اس وقت اگر کسی کو نیو ورلڈ آرڈر کی کہانی سمجھانی ہوتی تو یہ ناممکن تو نہیں مگر انتہائی مشکل کام ضرور تھا۔ اکثر افراد نیو ورلڈ آرڈر کے بارے میں سن کر ایک وہم بتاتے، کچھ اس انداز میں مسکراتے جیسے کسی بچے نے انہیں جنات سے ملاقات کی کہانی سنادی ہو، کچھ لوگ ایک ناسمجھی کی کیفیت میں تکتے اور پھر آگے بڑھ جاتے۔ گو کہ اب بھی صورت حال بہت زیادہ تبدیل نہیں ہوئی ہے تاہم اب یہ خوفناک حقیقت اکثر لوگوں کی سمجھ میں آتی جارہی ہے مگر مسئلہ اب یہ ہے کہ ہم بتدریج نیو ورلڈ آرڈر کے شکنجے میں کسے جاچکے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ سانس لینے کی جگہ کم ہوتی جارہی ہے۔
نیو ورلڈ آرڈر کس طرح کام کرے گا اس کی بہترین مثال کے الیکٹرک ہے۔ کے الیکٹرک کا نام پہلے کے ای ایس سی تھا اور یہ ایک سرکاری کمپنی تھی۔ پرویزی دور میں اسے اونے پونے داموں میں نج کاری کی نذر کردیا گیا۔ اس کے بعد سے یہ کمپنی دودھ دینے والی گائے بن گئی۔ بات محض اتنی نہیں ہے کہ کے الیکٹرک کے مالکان اپنی عمل داری میں آنے والے تمام صارفین کا لہو پی رہے ہیں۔ بات اس سے بہت آگے کی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ کے الیکٹرک چاہے جتنا بل جس صارف کو بھی بھیج دے، اس صارف کے پاس اس بل کی ادائیگی کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے۔ کہیں کوئی اپیل نہیں ہے اور کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہے۔ کے الیکٹرک چاہے جتنی دیر بجلی بند رکھے، کوئی اسے پوچھنے والا نہیں ہے۔ کے الیکٹرک جو ٹیرف چاہے، اسے اس ٹیرف سے بلنگ کا اختیار ہے۔ کے الیکٹرک تقریباً سارے ہی ملک کی نادہندہ ہے۔ چاہے واپڈا ہو، سوئی سدرن گیس ہو یا پی ایس او ہو، کے الیکٹرک ان تمام اداروں کو ایک ٹکے کی ادائیگی نہیں کرے گی اور ان تمام اداروں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنے بلوں کی وصولی تک کے الیکٹرک کو سپلائی روک دیں۔ کے الیکٹرک اپنے صارفین سے تو پی ٹی وی لائسنس فیس اور سرکار کے لیے سیلز ٹیکس کی مد میں بھاری وصولی کرلے گی مگر اسے خود ہی ہڑپ بھی کرلے گی مگر کسی کی تاب یا مجال نہیں ہے کہ کے الیکٹرک کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھ سکے۔
صرف اتنا ہی نہیں ہے۔ ساری سرکاری ایجنسیاں کے الیکٹرک حکام کے ماتحت ہیں۔ کے الیکٹرک اپنی پولیس اور اپنی جیل رکھتی ہے جس میں وہ کسی کو بھی بغیر کسی قانونی اختیار کے زیر حراست رکھ سکتی ہے اور اس پر تشدد بھی کرسکتی ہے۔کے الیکٹرک کی اپنی غنڈہ فورس ہے جو براہ راست تو کے الیکٹرک کی ملازم نہیں ہے مگر آؤٹ سورسنگ کے ذریعے اس کی خدمت کرتی ہے۔ یہ غنڈہ فورس رات ہو یا دن، کسی بھی صارف کے گھر کا تالا توڑ کریا دیوار کود کر اسے سبق سکھانے کے لیے اس کے گھر میں کود سکتے ہیں۔ ایف آئی اے اور سندھ پولیس بھی کے الیکٹرک کے ماتحت ہیں۔ جب کے الیکٹرک حکام حکم کریں، ایف آئی اے اور سندھ پولیس اس کی خدمت کے لیے حاضر ہوتی ہیں اور جس کی طرف اشارہ کردیا جائے، اسے اٹھا کر پابند سلاسل کردیا جاتا ہے اور اس پر تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ اس پورے کھیل میں صارف اپنی جان سے بھی جاسکتا ہے۔ ایسے کئی واقعات ہیں مگر کے الیکٹرک کے خلاف کچھ نہیں کیا جاسکتا۔
جی ہاں ملک میں عدالتیں موجود ہیں مگر کے الیکٹرک کے خلاف نہ تو کوئی فیصلہ آسکتا ہے اور نہ ہی کوئی حکم امتناع جاری کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی محتسب کا ادارہ بھی موجود ہے مگر یہاں پر بھی کے الیکٹرک کے خلاف شکایتوں کے انبار تلے دبے سسکتے صارفین پر کے الیکٹرک کے اہل کاروں کو دندناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ گئے دنوں میں جب متحدہ قومی موومنٹ کراچی کی بدمعاش ہوتی تھی تو اس کے سیکٹر انچارج کو بھی یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ موقع پر ہی گستاخ صارف کو سبق سکھا دیں۔ کسی گلی، کسی کوچے یا چوراہے پر کے الیکٹرک کے خلاف کوئی مظاہرہ نہ ہونے پائے۔ اب بھی ان سارے خدمت گزاروں نے اپنی ڈیوٹی پوری طرح سے سر انجام دی۔ میئر کراچی وسیم اختر نے لوڈ شیڈنگ کے خلاف مظاہرے میں کے الیکٹرک کے خلاف منہ سے کوئی لفظ نکالنے کے بجائے سوئی سدرن گیس کو لتاڑا کہ وہ کے الیکٹرک کو اس کی ہدایت کے مطابق گیس فراہم کرے۔ واضح رہے کہ کے الیکٹرک سوئی سدرن گیس کی 80 ارب روپے کی نادہندہ ہے اور ارزاں نرخوں پر گیس لیتی ہے۔ سابقہ سٹی ناظم اور پی ایس پی کے بانی مصطفی کمال ایک قدم اور آگے بڑھے اور سوئی سدرن گیس کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے کے الیکٹرک کو مفت میں گیس نہ دی تو اس کے ہیڈ آفس کے باہر مظاہرہ کیا جائے گا۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر وفاقی حکومت نے کے الیکٹرک کو گیس کی فراہمی بحال نہ کی تو وہ ایوان وزیر اعظم پر مظاہرہ کریں گے۔ گورنر سندھ زبیر عمر کا بھی یہی لب و لہجہ تھا۔ عدالت عالیہ نے بھی یہی احکامات جاری کیے۔ اس کے بعد وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کراچی پہنچے اور لاڈلے کے الیکٹرک کو گود میں بٹھا کر اسے آئسکریم کھلائی اور سوئی سدرن گیس کے حکام کی سرزنش کی اور انہیں کے الیکٹرک کو اس کی خواہش کے مطابق بلا تعطل، بلا معاوضہ اور بلاکسی مقداری کوٹے کے گیس کی فوری فراہمی کا حکم دے دیا۔
بھلا کوئی تو بتائے کہ کے الیکٹرک کے مالکان کون ہیں اور کن شرائط پر انہیں یہ کمپنی حوالے کی گئی ہے۔ اس کے معاہدے پبلک کیوں نہیں کیے جاتے۔ اس پر نگاہ رکھنے کا ادارہ نیپرا اس کی داشتہ کیوں بنا ہوا ہے۔ ملک کا کوئی قانون کے الیکٹرک پر لاگو کیوں نہیں ہوتا۔ صارفین کا حق کیوں محفوظ نہیں ہے کہ وہ جتنی بجلی استعمال کریں، انہیں اتنا ہی بل دیا جائے۔ بل کا ٹیرف منصفانہ کیوں نہیں ہے۔ کے الیکٹرف کو کس نے صارفین کو اغوا کرنے اور ان پر تشدد کرنے کی اجازت دی ہے۔ ایف آئی اے اور سندھ پولیس کے الیکٹرک کے احکامات پر کیوں عمل کرتی ہیں۔ اپنے صارفین سے کئی گنا زاید بل وصول کرنے کے باوجودکے الیکٹرک سارے سرکاری اداروں کی نادہندہ کیوں ہے۔ یہ اور اس طرح کے درجنوں سوالات ہیں جن کا جواب آپ کو کہیں پر نہیں ملے گا۔ جیسے ہی آپ یہ سوال کریں گے، اس کا جواب دینے کے ذمے دار ادھر ادھر ہوجائیں گے۔
یہی نیو ورلڈ آرڈر ہے جس میں فرد کے پاس کوئی اختیار، کوئی حق اور کوئی اپیل نہیں ہے۔ جو حکم دے دیا جائے اس پر اسے عمل کرنا ہے اور گداگر کی طرح دن رات کما کر اپنی ساری کمائی ٹھیکے دار کے حوالے کردینی ہے۔ ابھی تو ایک کے الیکٹرک ہے، آہستہ آہستہ سارے ہی ادارے اسی ڈگر پر ہوں گے۔ پورے ملک کا قانون اور قانون بنانے والے و نافذ کرنے والے ان ہی اداروں کی ماتحتی میں ہوں گے۔ عوام کا کام صرف اور صرف غلامی ہوگا۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہوشیار رہیے اور اپنے آس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔