زبان زد عام و خاص

513

بیرسٹر اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ: ’’زبان زد عام ہے کہ ہارلے اسٹریٹ کلینک شریف خاندان کا ہے‘‘۔ لاہور میں بے نظیر شہید کی سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس اسپتال میں کلثوم نواز زیر علاج ہیں وہ تو کوئی اسپتال نہیں بلکہ ایک کلینک ہے جہاں دل کے بائی پاس آپریشنز ہوتے ہیں۔ ان کے کہنے کا مطلب تھا کہ کلثوم نواز تو کینسر میں مبتلا ہیں پھر انہیں امراض دل کے کلینک میں کیوں رکھا ہوا ہے۔ ویسے ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس کلینک میں تو زچہ وبچہ (گائینک) وارڈ بھی ہے۔ بیرسٹر صاحب کے لیے ایک اور اطلاع یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے محسن اور دوست پیپلزپارٹی کے سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم کی اہلیہ بھی سرطان میں مبتلا ہیں اور پچھلے دنوں ہی اس کلینک میں ان کی سرجری ہوئی ہے۔ بھائی اعتزاز، پارٹی رہنما عاصم حسین ہی سے پوچھ لیا ہوتا کہ انہوں نے اپنی بیگم کو وہاں کیوں داخل کرایا، یہ تو ایک عام سا کلینک ہے اور اگر شریف خاندان کا ہے تو سیاسی مخالفت بیگم عاصم کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔
اعتزاز احسن کا ایک اعتراض یہ ہے کہ ہارلے اسٹریٹ کلینک کے اندر سے تو کوئی خبر نہیں آتی، جو خبر آتی ہے وہ نواز شریف کے مفرور بیٹے کے ذریعے ملتی ہے۔ کاش وہ زبان زد عام پر بھروسا کرنے کے بجائے اس کلینک کی ویب سائٹ ہی دیکھ لیتے۔ یہ اسپتال اپنے اہم مریضوں کے بارے میں تفصیلات عام نہیں کرتا۔
محترم اعتزاز احسن بہت اچھے وکیل ہیں اور خوب سمجھتے ہوں گے کہ بغیر ثبوت کے الزام لگانا کیا ہوتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اپنے الزامات کو ’’زبان زد عام‘‘ کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے ہارلے اسٹریٹ کلینک کے بارے میں شبہ ظاہر کیا ہے کہ یہ شریف خاندان کا ہے۔ غنیمت ہے کہ انہوں نے یہ نہ کہہ دیا کہ اسپتال میں کام کرنے والوں کا تعلق بھی شریف خاندان سے ہے اور حسین نواز یا حسن نواز اسپتال کے ڈائرکٹر ہیں۔ یہ اسپتال 19ویں صدی سے مشہور ہے اور گمان غالب ہے کہ اس وقت میاں شریف بھی پیدا نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہ اسپتال تھامس ہارلے سے منسوب ہے جو 1767ء میں لندن کے مئیر تھے۔ اس وقت ڈاکٹر انجم عبود اس کی نگران ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شریف خاندان نے اندرون و بیرون بہت کچھ خریدا ہے لیکن اس کلینک کو خریدنے کی استطاعت ان میں نہیں۔ جناب اعتزاز احسن کو یہ تو معلوم ہو گا کہ برطانیہ کا سرے محل کس کی ملکیت تھا اور اب یہ کس کے پاس ہے۔
اعتزاز احسن پیپلزپارٹی کے ان چند لوگوں میں سے ہیں جن سے ہمیشہ معقولیت کی توقع رہی ہے۔ انہوں نے سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا تھا لیکن بھٹو صاحب کے کہنے پر سرکاری ملازمت کے بجائے سیاست میں آگئے۔ شاعری بھی کرتے تھے، اب کا پتا نہیں لیکن جب وہ وزیر داخلہ تھے تو ایک ٹی وی پروگرام میں اپنا کلام سنایا تھا، ٹھیک ٹھاک تھا۔ جہاں تک زبان زد عام کی بات ہے تو ان سے زیادہ کون جانتا ہوگا کہ ان کی پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں کیا کیا کچھ زبان زد عام و خاص نہیں رہا۔ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو بھی زبانوں کی زد میں رہیں۔ اور یہ خاندانی سلسلہ آگے ہی بڑھا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور زرداری لیگ کے سرخیل جناب آصف علی زرداری کے بارے میں جو کچھ زبان زد عام ہے کیا اعتزاز احسن اس سے بے خبر ہیں۔ آصف علی زرداری نے تو شہرت کے تمام ریکارڈ توڑ پھوڑ کر رکھ دیے ہیں۔ ان کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اور کہا جارہا ہے اس میں بہت مبالغہ ہو تب بھی بہت کچھ ہے۔ اعتزاز احسن ہی بتا دیں کہ وہ کھرب پتی کیسے بن گئے جب کہ ان کے والد حاکم علی زرداری ایک اوسط درجے کے شخص تھے۔
یہ سب چھوڑیے، خود اعتزازاحسن کے بارے میں بہت کچھ زبان زد عام تھا۔ وہ جب وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے وزیرداخلہ تھے تو لوگوں کی زبانوں پر تھا کہ انہوں نے خالصتان تحریک کے سکھ رہنماؤں کے پتے ٹھکانے بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی تک پہنچا دیے تھے جس کے بعد اندرا نے سکھوں کے خلاف آپریشن بلیو اسٹار کیا اور سنت جرنیل سنگھ بھنڈرا نوالہ سمیت کئی رہنماؤں کو ٹھکانے لگا دیا۔ نتیجے میں خود اندرا بھی اپنے سکھ محاظ کے ہاتھوں قتل ہوگئی۔ اندرا بھی سقوط ڈھاکا کے ان کرداروں میں سے تھی جن کی اولاد بھی ماری گئی۔ اعتزاز احسن یقیناًاس کی تردید کریں گے لیکن زبان زد عام تو یہی ہے۔ اس کی تائید خود محترمہ بے نظیر بھٹو نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کی کہ اگر میں مدد نہ کرتی تو بھارت دو ٹکڑے ہو جاتا۔ یہ خیر سگالی اس بھارت کے لیے تھی جس نے پاکستان کو دولخت کر دیا۔
جناب اعتزاز احسن کے بارے میں تو بہت کچھ زبان زد عام ہے لیکن اس سے بہت کم جو ان کے مرشد آصف علی زرداری کے بارے میں ہے۔ گزشتہ دنوں ایک ٹی وی انٹرویو میں بھگوڑے جرنیل پرویز مشرف نواز شریف کی لندن میں جائداد کے بارے میں بہت کچھ بتا رہے تھے جو برطانوی اخبارات میں بھی آگیا۔ اس پر پیپلزپارٹی اور عمران خان کو ضرور اعتبار آگیا ہو گا لیکن اس زبان خاص سے پرویز مشرف نے کئی انکشاف زرداری کے بارے میں کیے۔ اگر ایک بات صحیح ہے تو دوسری بھی صحیح ہو گی۔ زرداری کھرب پتی کیسے ہو گئے، یہ تو اعتزاز احسن بھی جانتے ہوں گے۔ پرویز مشرف نے انکشاف کیا کہ زرداری نے بلاول ہاؤس کے اطراف کے تمام بنگلے خرید لیے ہیں۔ کینیڈا میں مقیم ان کے ایک دوست کا گھر بھی بلاول ہاؤس کے قریب تھا۔ اسے خریدنے کی کوشش میں ناکام ہو کر روزانہ ان کے گھر کے سامنے کچرے کے ڈھیر لگائے جانے لگے۔ آخر کار وہ اپنا گھر بیچنے پر مجبور ہو گیا۔ پرویز مشرف نے اور بھی کئی انکشافات کیے اس شخص کے بارے میں جس نے بڑے احترام سے اسے ملک سے رخصت کیا۔ زبان زد عام کی اور کیا بات کی جائے کہ بات پیپلزپارٹی کے بانی بھٹو تک پہنچے گی۔ اپنی اہلیہ نصرت بھٹو اور ان کے ماضی تک پہنچے گی جن کو بعد از مرگ مادر جمہوریت کا لقب دیا گیا۔ نصرت بھٹو جب المرتضی لاڑکانہ میں تھیں تو بے نظیر کے دور حکومت میں المرتضی پر گولیاں برسائی گئیں اور یہ بھی زبان زد عام تھا کہ کس کے حکم پر اور کیوں ایسا ہوا۔ اپنی والدہ کو پیپلزپارٹی کی صدارت سے جبراً ہٹا کر محترمہ بے نظیر خود تاحیات چیرپرسن بن گئیں۔ کراچی میں بے نظیر کے بھائی مرتضی بھٹو کے سرعام قتل کے بارے میں زبان زد عام کیا تھا، اعتزاز احسن کو یاد تو ہو گا۔ آج وہ دوسروں کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ زباں زد عام کیا ہے۔ وہ ایک شاعر بھی ہیں چناں چہ ان کی خدمت میں ایک خوبصورت شعر:
خار حسرت بیان سے نکلا
دل کا کانٹا زبان سے نکلا