امارت اسلامی افغانستان سے امریکی مخاصمت

285

افغانستان طوائف الملکی و انارکی کا شکار تھا۔ امن اور اصلاح معاشرہ کا علم اُٹھا کر دینی مدارس کے طلبہ نے ملا محمد عمر کی قیادت میں پیش قدمی شروع کردی۔ دنیا اس نئی صورت حال کو بھی افغانوں کی داخلی خانہ جنگی کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان درماندہ، دنیاوی آسائشوں اور ذات کے نفع سے بے نیاز طلبہ نے افغانستان کے غالب حصے پر قدرت حاصل کر لی۔ اور امن قائم کرنے میں سرخرو ہو گئے۔ یوں امریکا نے افغانستان کو دیکھنا شروع کردیا۔ یعنی افغان حکومت (طالبان) سے ان کی مخاصمت بڑھنے لگی۔ ترکمانستان، افغانستان، پاکستان، بھارت گیس پائپ لائن منصوبے میں طالبان کی دلچسپی کے بعد یہ مخاصمت کھل کر سامنے آگئی۔ چناں چہ امریکی حکومت اور سی آئی اے کے نزدیک طالبان کی حکومت ناقابل قبول و برداشت ٹھیری۔
ارجنٹائن کی تیل کی کمپنی ’’بریداس‘‘ نے 1994ء میں طالبان حکومت کو تاپی گیس پائپ لائن منصوبے کو قابل عمل بنانے کی تجویز پیش کی۔ جسے افغان حکومت نے سنجیدہ لیا۔ اس عرصے میں طالبان نے دنیا کی بڑی مالیاتی کمپنیوں سے بھی روابط قائم کرلیے۔ طالبان اور ’’بریداس‘‘ کے درمیان معاملات بہت آگے بڑھ گئے۔ گویا اس کمپنی کے صدر نے طالبان حکومت کو تیل کی سیاست سے روشناس کرایا۔ ادھر امریکی حکومت نے امریکا کی تیل کی کمپنی ’یونوکال‘‘ کے لیے لابنگ شروع کردی۔ اس کمپنی کو امریکی محکمہ خارجہ کی حمایت حاصل تھی۔ افغان حکومت کے وفد نے ارجنٹائن اسی طرح یونو کال کمپنی کا دورہ بھی کیا۔ ان مطالعاتی دوروں کا نتیجہ یہ اخذ کیا کہ امریکا اس کمپنی کے ذریعے ان کے داخلی معاملات میں مداخلت کا ارادہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں بے نظیر بھٹو وزیر اعظم تھیں جس کو بریداس کمپنی نے منصوبے کی اہمیت و افادیت پر قائل کر لیا تھا۔ 16 مارچ 1995 کو پاکستان اور ترکمانستان کے درمیان معاہدہ ہوا۔ جس کی رو سے کمپنی کو منصوبے سے متعلق رپورٹ بنانے کی اجازت مل گئی۔ امریکا اپنا اثر و رسوخ متوازی طور بڑھانے لگا۔ یوں امریکی کمپنی ’’یونوکال‘‘ نے پاکستان حکومت کی حمایت حاصل کرلی، تب میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے۔ چناں چہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ اس مداخلت کی بنا معطلی و التوا کا شکار ہوا۔ امریکا نے طالبان کو ہدف بنا کر افغانستان میں دلچسپی لینا شروع کرد یا۔ اُدھر ایک غضب اسامہ بن لادن کا افغانستان میں پناہ کا پیدا ہوا۔ جس کی تنظیم نے مبینہ طور پر مسلم ممالک میں امریکی مفادات پر وار کیے تھے۔ نیروبی اور دارالسلام میں امریکی سفارت خانوں پر حملے ہوئے۔ امریکا نے 1998ء میں مشرقی افغانستان میں اُسامہ بن لادن کے ٹھکانوں پر کروز میزائل سے حملے بھی کیے۔ خلیج کے پانیوں میں لنگر انداز جنگی بیڑوں سے داغے گئے کروز میزائل بلوچستان کے علاقے خاران کے ریگستانوں میں بھی گرے تھے۔
طالبان حکومت کی سیاسی، معاشی اور سفارتی اُڑان کو روکنے کے لیے امریکی سی آئی اے کے اسپیشل مشن کا آغاز بہت پہلے ہو چکا تھا۔ اس منصو بہ کے تحت افغان سابق جہادی رہنماؤں، کمانڈروں اور جماعتوں سے بلواسطہ اور بلاواسطہ مراسم قائم کرلیے گئے۔ جمعیت اسلامی افغانستان کے برھان الدین ربانی، نجات ملی کے صبغت اللہ مجددی، اتحاد اسلامی کے استاد سیاف، محاذ ملی کے سید احمد گیلانی، احمد شاہ مسعود اور سابق کمیونسٹ جماعتوں سے وابستہ رہنماؤں، جنبش ملی کے رشید دوستم، اسی طرح افغانستان کی اہل تشیع جماعتوں کا اعتماد حاصل کرنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے آگے بڑھا۔ سی آئی اے نے طالبان کے خلاف مذہبی، سیاسی اور نسلی تعصبات اُبھارنے پر خاص طور پر توجہ دے رکھی تھی۔ سرکردہ پشتون سیاسی لوگوں اور کمانڈروں کو بھی اس فہرست میں بطور خاص رکھا۔ جو طالبان کے آنے کے بعد جلاوطن ہوگئے تھے۔ ان میں اکثریت پاکستان میں مقیم تھے۔ ایران، امریکا اور یورپی ممالک بھی چلے گئے تھے۔ طالبان نے خانہ جنگی، لوٹ مار، خواتین اور نو عمر لڑکوں کی آبرویزی جیسے واقعات کے عالم میں تحریک کا آغاز کیا تھا۔ یہ خالصتاً افغان دینی مدارس کے طلبہ اُن شریف النفس مجاہدین کی تحریک تھی، جنہوں نے روسی افواج کے خلاف طویل جدوجہد کی تھی۔ اس تحریک کی سربراہی ملا عمر کررہے تھے۔ افغان عوام جنگ و جدل، ضلع کی سطح پر کئی کئی حکومتوں، کشت و خون اور لوٹ مار کے ماحول سے تنگ آچکے تھے۔ جنہوں نے ملا عمر کو نجات دہندہ سمجھ کر خوش آمدید کہا۔ تحریک کو ناقابل یقین پزیرائی اور کامیابی ملنے لگی۔ حزب اسلامی نے جنگ سے گریز کیا۔ اپنے زیر کنٹرول علاقے طالبان کے حوالے کر دیے۔ یہاں تک کے اسلحہ بھی دے کر چلی گئی۔ حزب اسلامی کے امیرگلبدین حکمت یار ایران میں مقیم تھے۔ نائن الیون کے بعد امریکا نے انہیں آپس میں تعاون و مدد کا پیغام بھیجا۔ یہاں تک کہ انہیں صدر بنانے کی پیش کش بھی کی۔ مگر حکمت یار نے طالبان کے خلاف جنگ و سیاسی عمل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا۔ اور امریکا پر واضح کردیا کہ افغانستان پر حملے کی صورت میں اس کی جماعت مزاحمت کرے گی۔ غرضیکہ باقی گروہوں کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اس طرح طالبان نے کابل فتح کرلیا۔ شمال میں مزار شریف بھی ان کے زیر نگیں آگیا۔ ان کی حکومت پاکستان اور سعودی عرب نے تسلیم کرلی۔
طالبان کو امریکا اور عالمی دنیا تسلیم کرنے کو تیار نہ ہوئی انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے انسانی، خواتین کے حقوق جیسے مسائل کو نمایاں کرنا شروع کردیا۔ رفتہ رفتہ ان پر اقتصادی، مالی اور سفارتی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ اب طالبان کی حکومت تنہاء ہوگئی۔ پڑوس میں ایران کے ساتھ بھی ان بن تھی۔ روس اور وسطی ایشیا کے مسلم ممالک کو ان سے خوامخواہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں طالبان کی حکومت ان کے ملکوں کی مذہبی یا شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہ نہ بنے۔ طالبان کی حکومت اپنی قانونی حیثیت تسلیم کرانے کی مساعی کر رہی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ اقوام متحدہ میں افغانستان کی خالی نشست پر ان کا حق تسلیم کیا جائے۔ امریکا، سی آئی اے افغانستان کے شمال مغرب، شمال مشرق، مشرقی اور جنوبی صوبوں کے پشتون قبائل کو طالبان کے خلاف منظم و مسلح کرنے میں برابر لگی ہو ئی تھی، تاکہ پشتون عوام باہم متصادم ہوں۔ امریکا سمجھتا تھا کہ دراصل کامیابی اسی صورت ہی میں ممکن ہوسکتی ہے۔ درحقیقت طالبان امریکا سے تب بھی مذاکرات سے انکاری نہ تھے۔ البتہ وہ چاہتے تھے کہ مذاکرات بے معنی لاحاصل اور یکطرفہ مفاد کے تحت نہ ہوں۔ طالبان کو ان کی سنجید گی کا علم تھا۔ جو سمجھتے تھے کہ مقصد پانے کے بعد امریکا معاہدے وعدوں سے منہ پھیرنے میں دیر نہیں کرے گا۔ غرضیکہ طالبان کو ا مریکی عزائم کی سُن گُن ہو گئی تھی۔ ان پر یہ خفیہ مشن پوری طرح منکشف ہوا۔ سی آئی اے نے دوسرے ممالک سمیت پاکستان میں مقیم افغان سرکردہ رہنماؤں کا اعتماد حاصل کر لیا تھا۔ اسی عرصہ کوئٹہ اور پشاور میں مبینہ طور پر امریکی گیم کا حصہ بننے والے یعنی طالبان کے خلاف امریکی کیمپ میں چلے جانے والے افغان رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ بھی ہوئی۔ کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں کمیونسٹ دور کا ایک جنرل نذر محمد نورزئی قتل ہوا۔ 14جولائی 1999ء ہی کو کوئٹہ میں احد کرزئی قتل کردیے گئے۔ احد کرزئی سابق افغان صدر حامد کرزئی کے والد تھے۔ یہ خاندان کوئٹہ کے سیٹلائٹ ٹاؤن میں رہائش پزیر تھا۔ والد کے قتل کے بعد حامد کرزئی محتاط ہوگئے اور پاکستان سے چلے گئے۔ گویا امریکا اور طالبان کے درمیان ایک خاموش یا سرد جنگ کا آغاز نوے کی دہائی یعنی ان کی حکومت بننے کے ساتھ ہی شروع ہو چکی تھی۔ 1989ء میں روسی افواج کے نکلنے کے معاً بعد امریکا نے پاکستان کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔ پاکستان پر دباؤ کی پالیسی اختیار کرلی۔ یہاں تک کہ 1990ء میں پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد بھی روک دی۔