بلوچستان چین شراکت داری۔۔۔

275

 

چین اکتوبر 1949ء کو ماؤزے تنگ اور چُواین لائی جیسے قدآور رہنماؤں کی قیادت میں بھوک، افلاس، بد عنوانیوں، خانہ جنگیوں اور نیم نو آبادیاتی دور سے نکل آیا۔ یہ کمیونسٹ انقلاب تھا۔ حالاں کہ سویت یونین کی صورت میں اشتراکی طاقت کا توتی نصف دنیا میں بولتا تھا۔ جو چاہتا تھا کہ چین بھی اس کا مطیع وزیر نگیں رہے۔ جس کی سُرخ طاقت نے ساٹھ اور سترکی دہائیوں میں عملاً کو ششیں بھی کیں۔ چینی قیادت نے اپنی خودمختاری پر قطعی سمجھوتا نہ کیا، اپنے قومی و ملی وقار کوبلند کیے رکھا۔ اور خم ٹھونک کر میدان میں آگیا۔ یوں روس و امریکا سمیت دنیا کی بڑی طاقتوں نے نئے چین سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قبول کر لیے۔ پاکستان اشتراکی نقل و حمل سے مضطرب تھا۔ پاکستان کا بناؤ امریکا کے ساتھ تھا گویا یہ تعلق بالادست اور زیر دست کا تھا جس کا واضح مشاہدہ امروز کی امریکی رعونت سے بھی بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ جو افغانستان میں بھی اپنی ہر ناجائز بات منوانے کی خاطر تحکمانہ انداز اختیار کیے ہوئے ہے۔ نائن الیون کے بعد افغانستان پر قبضہ کرنے میں گاجر اور چھڑی کی پالیسی کے تحت پاکستان کو ہمنوا بنایا۔ مقصد پاکر بھارت کو پا کستان کا آقا بنانے کی حکمت عملی اپنائی۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں کہ کمیونسٹ ملک ہونے کے باوجود عوامی جمہوریہ چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات اول روز سے بردارانہ اور حقیقی ہمسا ئیگی پر مبنی ہیں۔ حالاں کہ ماؤزے تنگ اور کمیونسٹ پارٹی سے مرعوب و مانوس کمیونسٹوں کی پاکستان میں کمی نہ تھی۔ چین کی اس وقت کی اپروچ بھی باہمی تجارت کرنے والے ملک کی ہے، جو دور دراز کی منڈیوں کی تلاش میں ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہ داری اسی کی کڑی ہے۔ قیادت میں اہلیت، بصیرت اور خود اختیاری کا مادہ و جوہر موجود ہو تو سی پیک ہمیں ترقی و خوشحالی کے دور میں داخل ہو نے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ یقینی طور پر بلوچستان غربت، افلاس اور پس ماندگیوں کی اتھا گہرائیوں سے مختصر وقت میں نکل سکتا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین پاکستان کی مشکلات بارے متجسس ہے۔
پاک چین کا ہمہ جہت و ہمہ پہلو ارتباط امریکا کو بری طرح کھٹکتا ہے۔ جس نے پاکستان کی حالیہ معاشی مشکلات کی وجہ چین سے لیے گئے قرض باور کرایا ہے۔ چینی دفتر خارجہ امریکی لن ترانی کو مسترد کر چکا ہے۔ بلکہ اس خواہش کا اظہار کیا کہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کے حل کے لیے آئی ایم ایف کی بھی مدد و معاونت کریں۔ یہ بات چین کے سمجھنے کی بھی ہے کہ معاشی، اقتصادی طور پر بدحال اور سیاسی طور پر غیر مستحکم پاکستان در حقیقت چین کے مفاد میں نہیں ہے۔ افغانستان میں امریکا کی موجودگی پہلے ہی خطے کے ممالک کے لیے باعث تشویش ہے۔ چناں چہ اس ذیل میں خیبر پختون خوا اور بلوچستان کے اندر امن سردست چین کی ترجیح ہے۔ اس ضمن میں پاکستان اندرونی طور پر کئی اقدامات اٹھا چکا ہے۔ آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد اس تناظر میں کئی حوالوں سے بہتری لاچکا ہے۔ سی پیک منصوبوں کی حفاظت کے حوالے سے پاکستان کی فوج ہمہ پہلو نگاہ رکھے ہوئی ہے۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ 21ستمبر کو بیجنگ گئے۔ یہ دورہ چین کی خصوصی دعوت پر کیا گیا۔ صدر شی چن پنگ سے ملاقات کی۔ فوج کا کردار علاقائی سیکورٹی اور درپیش چیلنجز کے پیش نظر بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آئندہ چند دنوں میں وزیراعظم عمران خان کا دورہ چین بھی متوقع ہے۔ گویا ان باہمی تجارتی معاہدوں کا انحصار ہماری دانش و خرد پر ہے کہ ہم اس سے کتنا فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ ہاں بیورو کریسی اور سیاسی قیادت بد عنوانی، نالائقی و تساہل کا مظاہرہ کرے تو اس کے لیے چین کی حکومت کو مورد الزام ٹھیرانا درست نہ ہوگا۔
8اکتوبر کو چینی سفیر ’’یاؤ جنگ‘‘ کی قیادت میں وفد کوئٹہ آیا۔ شاید یہ حکومت بلوچستان سے اعلیٰ سطح کا پہلا براہ راست اجلاس تھا۔ مختلف منصوبوں کے آغاز و تکمیل سمیت دوسری مختلف تجاویز پیش ہوئیں۔ صوبے کے لیے برابری کی بنیاد پر شراکت داری کی تجویز بھی پیش کی گئی۔ یقیناًلازم ہے کہ سی پیک منصوبوں میں بلوچستان کی معیشت، سماجی شعبوں اور قدرتی وسائل کی ترقی میں اول تا آخر صوبے کے مفاد کو مقدم رکھا جائے۔ بلوچستان میں زراعت، معدنیات، توانائی، صنعت اور دوسرے شعبوں کی شراکت داری سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال کا یہ عزم قابل ستائش ہے کہ حکومت بلوچستان، حاصل آئینی اختیارات صوبے کے مفاد میں استعمال کرے گی۔ سو ڈٹے بغیر صوبے اور عوام کے حقوق چھینے نہیں جا سکتے، اس کے لیے مشکل و کٹھن مر حلوں سے گزرنا ہو گا۔ ایک چینی نظم کا مصرع ذہن میں رہے کہ ’’خطرناک چوٹیوں ہی میں ناقابل شمار خوبصورتی کا بسیرا ہے‘‘۔ جام کمال وفد کے ساتھ چین جائیں گے۔ لہٰذا صوبائی مفاد کے تحت چینی حکومت کے ساتھ براہ راست معاملات طے کرنے کی پالیسی اختیار کریں۔ کیوں کہ صوبے کے مسائل اور ضروریات کا ادراک فی الاصل صوبائی حکومت ہی کو ہے۔ اس دورے میں بھان متی کا کُنبہ یعنی بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کے بجائے صوبائی کابینہ، حزب اختلاف اور ماہرین کو شامل کیا جاتا تو دورہ نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا ہے۔
9اکتوبر کو عوامی جمہوریہ چین کی 69 سالگرہ کی مناسبت سے کوئٹہ میں بھی باوقار تقریب ہوئی۔ چین کے اسلام آباد میں متعین سفیر یاؤ جنگ اور دوسرے حکام موجود تھے۔ وزیراعلیٰ اور نئے گورنر امان اللہ یاسین زئی، صوبائی وزرا، تاجر، صحافی اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد شریک ہوئے۔ تصویری نمائش کا اہتمام کیاگیا۔ تصاویر میں چین کی روز افزوں ترقی دکھائی گئی تھی۔ شرکت کی دعوت بلوچستان اکنامک فورم نے دی تھی۔ مہمانوں کو خوش آمدید کے لیے فورم کے صدر سردار شوکت پوپلزئی اور ان کی ٹیم موجود تھی۔ تقریب سے چینی سفیر اور گورنر بلوچستان نے مختصر خطاب کیا۔ گورنر بلوچستان نے کوئٹہ میں چینی قونصل خانہ کے قیام کی خواہش کا اظہار کیا۔ گورنر کی اس تجویز یا مطالبے پر صوبے کی کسی جماعت کی جانب سے منفی رد عمل نہ آیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہاں کے عوام اور سیاسی جماعتیں چینی قونصل خانے کے قیام پر معترض ہونے کے بجائے خواہش مند ہیں۔ وگرنہ ماضی میں امریکا نے کوئٹہ میں قونصل خانہ تعمیر کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ جس پر سیاسی و عوامی حلقوں کی جانب سے تشویش اور سخت مخالفانہ رد عمل سامنے آیا۔ صوبے میں امن کی صورت حال بھی دگرگوں تھی یوں امریکا کو بھی سکوت اختیار کرنا پڑا۔