بچوں کی ’’تجاوزات‘‘

420

ہم تو ہمیشہ ہی سے جناب چیف جسٹس پر نثار ہیں کہ وہ ثاقب بھی ہیں یعنی روشن، چمکدار۔ یہ اسم صفت ہے اور ہمارے قاضی القضاۃ کی صفت۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف عدلیہ کے معاملات نہیں دیکھتے بلکہ ہر ایک کی خبر لیتے ہیں۔ ایسے ہمہ صفت لوگ بہت کم ہوتے ہیں۔ جناب چیف جسٹس چومکھی لڑرہے ہیں۔ خدا انہیں سلامت رکھے۔ ایک طرف تو وہ ڈیمز کے لیے چندہ اکٹھا کررہے ہیں، کالا باغ ڈیم بنانے کا عزم بھی کر بیٹھے ہیں۔ دوسری طرف تجاوزات ختم کروارہے ہیں اور اب انہوں نے خاندانی منصوبہ بندی بھی اپنے ہاتھوں میں لے لی ہے۔ ان کے خیال میں دو سے زیادہ بچے بھی تجاوزات میں آتے ہیں۔ انہوں نے لندن جا کر اعلان کیا ہے کہ پاکستان کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی مہم دسمبر کی 12 یا 13 تاریخ سے شروع کردیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ مہم کی ابتدا اپنے گھر سے کریں گے کیوں کہ لوگ اسی لیڈر کی پیروی کرتے ہیں جو لوگوں کے لیے خود مثال بنے۔
بچوں کو پیدا ہونے سے روکنے کا یہ عزم انہیں مبارک ہو لیکن اپنی پیروی کرانے سے پہلے یہ بھی بتادیں کہ ان کے کتنے بچے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی شادی شدہ ہے تو اس کے کتنے بچے ہیں تا کہ پیروی کرنے میں آسانی ہو۔ ہمیں یقین ہے کہ وہ جس طرح دو بچوں پر اصرار کررہے ہیں، ان کے بھی دو ہی بچے ہوں گے اور دونوں اچھے ہوں گے۔ اب خود تو شاید وہ اپنی نصیحت پر عمل نہ کرسکیں لیکن اپنے بچوں اور عزیز، رشتہ داروں پر ضرور نظر رکھیں گے اور ضرورت ہوگی تو سوموٹو ایکشن بھی لیں گے۔
ہم اس پریشانی میں مبتلا ہیں کہ دو سے زاید بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ کیا انہیں عاق کردیا جائے؟ لیکن شرع میں تو عاق کرنے کا کوئی قانون ہی نہیں ہے البتہ پاکستان کے قانون میں اس کی گنجائش ہو تو ہو کیوں کہ شرع اور پاکستانی قانون میں مماثلت ضروری نہیں۔ اس کے لیے بھی جناب چیف جسٹس کو کوئی حکم جاری کرنا ہوگا کہ جس کے دو سے زاید بچے ہوں ان رُواید کے لیے کیا کیا جائے، کیا انہیں گھر سے نکال دیں یا کسی اور کو دے دیں، چیف جسٹس صاحب ہماری پریشانی دور کردیں کہ ہمارے بھی تین بچے ہیں اور ہم یہ فیصلہ نہیں کرپائے کہ ان میں سے کون سے دو اچھے ہیں۔
محترم ثاقب نثار کو یاد ہوگا کہ بے نظیر بھٹو 1988ء میں وزیراعظم بنیں تو انہوں نے ملک بھر میں ’’بچے دو ہی اچھے‘‘ کے بینرز لگوا دیے۔ پھر یہ ہوا کہ وزیراعظم ہوتے ہوئے وہ تیسرے بچے کی ماں بھی بن گئیں تو ملک بھر سے یہ بینرز ہٹوا دیے گئے تاہم ان کی جگہ بچے تین بھی اچھے کا نعرہ نہیں لگا۔ حیرت ہے کہ خود بے نظیر کی والدہ کے چار چار بچے تھے۔ لیکن انہیں اپنی والدہ کی یہ بات پسند نہیں آئی۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ 1988ء میں جناب ثاقب نثار کی عمر کیا تھی اور اس وقت ان کے کتنے بچے ہوچکے تھے۔ اُمید تو ہے کہ وہ بے نظیر نعرے سے متاثر ہوگئے ہوں گے۔ چناں چہ انہی کی یاد تازہ کرنے چلے ہیں۔ انہیں پاکستان میں بڑھتی ہوئی آبادی پر بڑی پریشان ہے۔ لیکن جب تک ہمارے سرکاری اسپتال اور ناتجربہ کار معالج موجود ہیں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ تھرپارکر میں تو یہ کام اعلیٰ سطح پر ہورہا ہے، روزانہ بچے کم ہورہے ہیں، اکبر الٰہ آبادی نے کہا تھا:
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
تو کیا بچوں کو قتل کرنے اور انہیں پیدا ہونے سے روکنے کا تعلق فرعون سے ہے۔
ہمارے نہایت معزز چیف جسٹس نے کئی کام اپنے ذمے لے لیے ہیں۔ ڈیمز بنانا، تجاوزات گرانا، بچوں کو پیدا ہونے سے روکنا، بینکوں کے نادہندگان سے قرضوں کی واپسی، صحت و تعلیم کے معاملات، گلی کوچوں سے غلاظت کے انبار ہٹانا۔ گویا اس مختصر سے وقت میں کیا کیا کرے کوئی۔ ریٹائرمنٹ بھی قریب ہے جس کے بعد وہ کسی ڈیم کی نگرانی کے لیے جھونپڑی ڈال کر بھی بیٹھیں گے۔ عدالتی معاملات تو آٹو پائلٹ پر لگادیے ہیں۔ کاش ہماری حکومت ان کی ملازمت میں توسیع کردے کہ کوئی ایک کام تو ہوجائے۔ آبادی پر کنٹرول کے بارے میں سید مودودی نے بڑی اچھی مثال دی ہے کہ ریل کے ڈبے میں رش کی وجہ سے کچھ مسافر خوشامد در آمد کرکے اندر گھس جاتے ہیں اور پھر وہی دوسروں کو روکتے ہیں کہ اندر جگہ نہیں ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کے شکار ایک شخص سے ان کی اہلیہ نے منظوم شکوہ کیا تھا:
تو ہی ناداں چند بچوں پر قناعت کر گیا
ورنہ تیرے سامنے منصوبہ بھی تھا بندی بھی تھی
نہایت محترم چیف جسٹس صاحب، مودبانہ عرض ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ ہی پڑھ لیں، خاص طور پر سورہ بنی اسرائیل۔
چلیے ہم ترجمہ پیش کردیتے ہیں، آپ کے پاس فرصت کہاں۔ ’’اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل بڑی خطا ہے‘‘۔ (آیت نمبر: 31)
رسول اکرمؐ کا فرمان بھی دھیان میں رکھیں۔