اِدھر اْدھر مت دیکھیں اللہ کی رسی کو تھامیں

181

میرے سسر کاتب تھے۔ میں اکثر ان کے قلم ہاتھ میں پکڑ کر کوشش کیا کرتا تھا کہ کوئی ایک لفظ ہی سہی، ان کے جیسا خوبصورت لکھ لوں۔ میرا اپنا خیال یہ ہوتا تھا کہ شاید ان قلموں میں کوئی کمال ہوتا ہو لیکن ہر مرتبہ مجھے شرمندگی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہ آیا۔ ایک دن میں اسی قسم کی کسی کوشش میں مصروف تھا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھ سے قلم واپس لے لیا اور ایک قصہ سنانے لگے۔ کہنے لگے کہ سیدنا عمرؓ کے پاس کسی نے شکایت کی کہ عمر ابن العاصؓ میدان جنگ میں جو تلوار استعمال کرتے ہیں وہ بہت ہی خاص تلوار ہے جس کی وجہ سے وہ جس پر ہاتھ اٹھاتے ہیں اس کا کام تمام ہو جاتا ہے۔ آپؓ نے وہ تلوار منگوا بھیجی۔ جب وہ تلوار دربار خلافت میں پہنچی تو وہ ایک عام سی تلوار تھی جو اس وقت ہر مجاہد کے پاس ہوا کرتی تھی۔ شکایت کرنے والے کو بلاکر وہ تلوار اس کو دکھائی گئی جس پر وہ خاموشی کے سوا اور کیا تبصرہ کر سکتا تھا۔ تلوار واپس روانہ کردی گئی۔ جو شخص تلوار واپس لیکر گیا تو واپسی پر اسے عمر ابن العاصؓ نے ایک رقعہ تھما دیا کہ یہ عمرؓ کی خدمت میں پیش کردینا۔ وہ رقعہ جب آپؓ کے پاس پہنچا اور آپؓ نے اسے کھولا تو اس میں بصد احترام درج تھا کہ ’’عمر تم نے میری تلوار تو منگوائی لیکن وہ بازو نہیں منگوائے جس میں یہ تلوار ہوا کرتی ہے‘‘۔ بات قلم یا وزارت کے قلمدان کی نہیں ہوتی، بات ہوتی ہے اس ہاتھ کی جس میں قلم ہوتا ہے اور وزارت کے اس قلم دان کی جس پر کوئی متمکن ہوتا ہے۔
وہ کون سی حکومت ہے جو اب تک قرض اور ادھار پر نہیں چلتی رہی اور وہ کون سا وزیر خزانہ ہے جو ہر سال عوام پر ٹیکس پر ٹیکس نہیں لگاتا رہا۔ پاکستان میں ایسا ہر دور ہی میں ہوتا رہا ہے لیکن تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس وزارت پر جو جو بھی آتا رہا اس کی صلاحیتیں بھی سامنے آتی رہیں۔ تمام تر ٹیکسوں اور قرض کے انبار کے باوجود پاکستان کو اس مشکل صورتحال کا سامنا نہیں رہا جو فی زمانہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک کا ایک بڑا مسئلہ بد دیانتی کا بھی رہا ہے جس کی وجہ سے ملک کی معیشت کی چولیں ہل کر رہ گئیں ہیں لیکن اس میں قصور صرف ملک کی دولت کو لوٹنے والوں ہی کا نہیں بلکہ ان اداروں کا بھی ہے جو ہر قسم کی کرپشن کی روک تھام کے لیے بنائے گئے ہیں۔ وہ تمام ادارے جو ہر کرپٹ فرد کو اپنی گرفت میں لیکر قرار واقعی سزا دلاسکتے ہیں ان کی پر اسرار غفلت نے ایسے لوگوں کے حوصلے بلند کیے جس کی وجہ سے ملک کی دولت کو غیر قانونی ذرائع سے باہر لیجانے والوں کو روکا نہیں جا سکا۔ اگر موجودہ حکومت کے اس دعوے کو مان لیا جائے کہ اب وہ سوراخ بند کر دیے گئے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ بچت ؂
جو کرپشن کے رک جانے کی وجہ سے کروڑوں روپے رزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے وہ آخر کہاں جا رہی ہے جبکہ قرضے اسی طرح لیے جارہے ہیں جس طرح ماضی میں دوسری حکومتیں لیتی رہی ہیں۔ غیر ممالک سے بھی قرضے لیے جا رہے ہیں، ملک کے بینکوں سے بھی قرضہ لیا جارہا ہے، غیر ضروری اخراجات میں کمی کی وجہ سے بھی بڑے پیمانے پر بچتیں ہو رہی ہیں اور سرکاری ہاوسز کے اخراجات میں کمی کی وجہ سے کافی سرمایہ بچ رہا ہے لیکن اس کے باوجود جو اطلاعات ہیں وہ یہی ہیں کہ معیشت کا پہیا الٹا گھومتا ہوا نظر آرہا ہے جو نہایت تشویش کی بات ہے۔ امریکی کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا حجم 2 ماہ کی درآمدات بل سے بھی کم ہے۔ موڈیز کے مطابق پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ قابو میں نہیں آرہا اور زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے جبکہ درآمدات کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی کمی ہوئی ہے۔ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اگلے ماہ قرض ادائیگیوں کے کل حجم سے بھی کم ہیں۔ ایک جانب پاکستان کی صورت حال یہ ہے اور دوسری جانب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر فرما رہے ہیں کہ ’’منی بجٹ میں نئے ٹیکس لگیں گے۔ قرضوں پر سود دینا ہوگا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی وفاقی وزیر یہ خوش خبری سناتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں کہ ’’فی الحال ملک کے نادہندہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں‘‘۔ گویا وہ اس بات پر ہی بہت مطمئن اور خوش ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں۔ ان کے اس جملے میں یہ بات ضرور پوشیدہ ہے کہ ہم خطرے کی لکیر کے آس پاس ہی گھوم رہے ہیں اور اگر موجودہ صورت حال پر قابو نہیں پایا گیا توحالات کوئی بھی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔ اس تمام صورت حال کو پیش کرنے کے بعد ان کا یہ کہنا بھی تھا کہ ’’آئی ایم ایف کے ساتھ مسلسل مذاکرات جاری ہیں جیسے ہی اچھا پروگرام فائنل ہو گا معاہدہ کر لیں گے‘‘۔ یہ وہ آئی ایم ایف ہے جس کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ یہ بہت کڑی شرائط پر قرضہ دیتا ہے اور اس سے لیا ہوا قرضہ عوام پر بہت برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آئی ایم ایف جب جب بھی قرض دیتا ہے وہ چند اشیا پر فوری ٹیکس لگانے اور وہ اشیا جو حکومت مہنگے داموں خرید کر عوام کو کم قیمت پر فراہم کرتی ہے تاکہ عوام پر مہنگائی کا بوجھ کم سے کم پڑے، ان سب کے زر تلافی کی ادائیگی کو ختم کرنے کا مطالبہ ضرور کرتا ہے۔ اب جبکہ حکومت نے قرض لینے سے قبل ہی وہ سارا اقدامات از خود اٹھا لیے ہیں، گیس، تیل اور بجلی کی قیمتوں میں خود ہی بے تحاشا اضافہ کردیا ہے اور زر تلافی (سبسڈی) کے ختم کرنے کا عندیا دے دیا ہے تو اس بات پر حیرانی ہے کہ کیا اب بھی کوئی ایسی شے مانع ہے جس کی وجہ سے آئی ایم ایف قرض دینے کے لیے تیار نہیں؟۔ جن جن مدات میں آئی ایم ایف کڑی شرائط عائد کیا کرتا ہے جب پاکستان از خود ان شرائط پر عمل پیرا ہوچکا ہے تو پھر قرض کے حصول میں رکاوٹ کچھ اور ہی ہو سکتی ہے وہ نہیں جس کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ صرف آئی ایم ایف ہی کا آپشن ہمارے پاس نہیں بلکہ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ ’’مختلف ذرائع سے بھی فنڈز کے حصول کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ معاشی ترقی کے لیے اہم فیصلے کر رہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اقدامات تجویز کیے جائیں گے‘‘۔
اگر وزیر خزانہ کی ساری باتوں کو سامنے رکھا جائے تو نچوڑ قرض اور قرض ہی نکلتا ہے جو اس وقت کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ گویا فی الحال حکومت کا اگر سب سے بڑا کوئی کارنامہ ہوگا تو وہ ایک بھرپور قرض حاصل کرنا ہوگا جو ایک المیے سے کم نہیں۔ پاکستان کا اصل المیہ یہ ہے کہ یہ ہر دور میں اپنی غلامانہ ذہنیت کا بھرپور مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس کے پاس اپنا کوئی آئین و قانون یا ملک چلانے کے لیے کوئی واضح پروگرام نہیں تھا۔ آج بھی برطانوی دور کے بے شمار ایکٹ آئین و قانون کی بنیاد ہیں۔ پھر امریکا بہادر کی گود ایسی پسند آئی کہ تا حال اسی میں ہمک رہا ہے۔ اب اگر اس سے دوری اختیار کرنے کا ارادہ بندھ گیا ہے تو ہر معاملے میں چین کے حوالے دیے جا رہے ہیں چنانچہ وزیر خزانہ پاک چین پبلک آڈٹ سیمینار میں خطاب فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ہم چین کے آڈٹ نظام سے فائدہ اٹھا کر کرپشن پر قابو پا سکتے ہیں‘‘۔ دو روزہ سیمینار میں چین کے نیشنل آڈٹ آفس کا ایک چھ رکنی وفد بھی شرکت کر رہا ہے۔ اس موقع پر وزیرخزانہ نے کہا کہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے کو ایمانداری، شفاف اور دانش مندانہ طریقے سے خرچ کرنا ہماری ذمے داری ہے، اس حوالے سے آڈیٹر جنرل کا کردار اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت اداروں کو مضبوط کرنے پر یقین رکھتی ہے، سرکاری فنڈز کے بہتر استعمال کو یقینی بنانے اور آڈٹ نظام کی بہتری کے لیے آڈیٹر جنرل آف پاکستان اپنی بھرپور صلاحیت کو بروئے کار لائیں۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ 70 برس گزر جانے کے باوجود بھی ہم ہر معاملے میں دوسروں ہی کی جانب دیکھتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ انتہا یہ ہوگئی ہے کہ آڈٹ کے نظام کے لیے بھی ہم چین کی جانب رخ کرکے کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ ہم نے جس مقصد کے لیے اس ملک کو بنایا تھا اس مقصد عظیم اور اس نظام حکومت کو بھلا بیٹھے ہیں جس میں ہر درد کا مداوا ہے اسی لیے کبھی ہم برطانیہ، کبھی امریکا اور کبھی چین کی جانب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام حالات کو سامنے رکھتے ہوئے صرف اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ
اب بھی پانی کی طلب کی تو سرابوں سے حبیبؔ
اب تو یہ ریت کی دیوار گرادی جائے
بہتر یہی ہے کہ اللہ سے کیے گئے وعدوں کی جانب پلٹا جائے اور اِدھر اْدھر دیکھنے کے بجائے اللہ کی رسی کو تھام لیا جائے تو ہماری ساری مشکلات ختم ہو سکتی ہیں بصورت دیگر ہم اْسی عطار کے لونڈے سے دوا لے لے کر مرض میں اضافہ تو کرتے جائیں گے لیکن مرض سے نجات نہیں پا سکیں گے۔