کہ خوشی سے مرنہ جاتے

225

 

 

باتیں فلک کی قصے زمیں کے۔۔۔ یہ گانا جس نے بھی لکھا تھا ایسی سچ بات کہنے، لکھنے اور گانے والے دنیا میں ولی کہلانے کے مستحق ہیں۔ اب تو عالم یہ ہو گیا ہے کہ جو بھی آتا ہے وہ آنے سے قبل جتنی بھی باتیں کرتا ہے اس کے منہ سے فلک اور زمین ہی کی باتیں جھڑ رہی ہوتی ہیں لیکن اس گانے کے آخری بول ’’جھوٹے کہیں کے‘‘ پر آکر ساری کہانیاں اور قصے ختم ہو جاتے ہیں۔ آسمان کی باتیں اور زمین کے قصے چھیڑنے والوں میں خواہ سیاسی لیڈر ہوں، پارٹیاں ہوں، اعلیٰ سرکاری عہدوں پر متمکن افراد ہوں، اعلیٰ عدلیہ کے ججز ہوں یا دانشوران قوم، ان کے منہ سے جھڑتی تو پھلجھڑیاں ہیں لیکن انجام کار کانٹوں اور خاروں کی صورت میں ملتا ہے۔ اسی لیے اسد اللہ خاں غالب نے کہا تھا کہ
جب توقع ہی اٹھ گئی غالب
کیا کسی کا گلہ کرے کوئی
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ یہاں آئین و قانون نہیں بلکہ شخصیات راج کرتی ہیں۔ دنیا میں جہاں جہاں بھی مہذب حکومتیں ہیں وہاں قوموں کی تقدیر کسی شخصیت کے گرد نہیں بلکہ قانون کی اتباع میں گردش کرتی ہے اس لیے کوئی شخصیت آئے یا چلی جائے اس سے قوم کی زندگی اور اس کے معمولات پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سالار تبدیل ہوں، حکومت پر بیٹھے افراد کے چہرے بدلیں یا ادارہ انصاف میں آنے جانے والے ججوں کی شخصیات، ملک کا نظام بنا کسی ہلچل کے رواں دواں رہتا ہے بلکہ عام شہری کو تو کسی بھی آنے جانے کہ خبر تک نہیں ہوتی اس لیے کہ ان ممالک میں حاکمیت قانون کی ہوتی ہے کسی فرد کی نہیں ہوتی۔ امریکا جو اتنی بڑی طاقت ہے اس کے صدور آتے جاتے رہتے ہیں، سالار تبدیل ہوتے رہتے ہیں، عدالتوں کے ججز بھی اپنی مدت مقررہ کے بعد تبدیل ہوجاتے ہوں گے لیکن کیا ہر تبدیلی کے بعد طوفان برپا ہوجاتا ہے۔ دور نہیں جائیں، کیا ایسا سب کچھ بھارت میں نہیں ہوتا ہوگا لیکن کیا قوم کسی کے آنے جانے سے متاثر ہوجاتی ہے۔ ایسا نہ ہونے کا سبب صرف اور صرف قانون کی حکمرانی اور آئین و قانون نے جس محکمے اور ادارے کے لیے جو لائن کھینچی ہے اور جو دائرہ اختیار بنا دیا ہے، ہر ادارہ اور ادارے کا سربراہ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر ہی اپنے فرائض منصبی انجام دیتا ہے۔ ہم نے آج تک نہیں سنا کہ کوئی بھی اپنے جامے سے باہر نکلا ہو۔
پاکستان میں ہر تبدیلی کے موقع پر عوام اداروں کے بجائے فرد کی جانب دیکھتے نظر آرہے ہوتے ہیں۔ ایسا کرنا یا دیکھنا غلط بھی نہیں اس لیے کہ ادارے کی کارکردگی کا انحصار اس کے سربراہ پر ہی منحصر دیکھا گیا ہے۔ یہ اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے کہ پاکستان میں آئین و قانون کی نہیں شخصیات کی حکمرانی چلا کرتی ہے یا باالفظ دیگر آئین اور قانون ہوتا ہی وہ ہے جو اس ادارے کے سربراہ کے منہ سے نکلے۔
اسی بات کی ایک ہلکی سی جھلک جسٹس نثار کی رخصتی اور جسٹس سعد کھوسہ کی آمد پر دیکھی گئی۔ جسٹس نثار کے جانے سے اگر کچھ لوگوں کے چہرے رنجیدہ نظر آنے لگے تو کچھ کے پررونق۔ اگر قانون حکمرانی کر رہا ہوتا تو اس قسم کے کسی بھی تاثر کو کیوں کر محسوس کیا جاسکتا تھا؟۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد ان کی جگہ لینے والے جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جہاں دیگر اہم باتوں کی جانب اشارہ کیا وہیں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ از خود نوٹس کا استعمال صرف اس صورت میں کریں گے جب کوئی صورت نہیں ہوگی۔ جمعرات کو اسلام آباد میں سبک دوش چیف جسٹس ثاقب نثار کے اعزاز میں عدالت عظمیٰ میں فل کورٹ ریفرنس کا انعقاد ہوا۔
اب مجھے اس کا علم تو نہیں کہ ’’ازخود‘‘ نوٹس کی قانونی حیثیت کیا ہے لیکن کسی کا مکھی مر جانے پر بھی ’’ازخود‘‘ نوٹس لے لینا اور کسی کا ’’ازخود‘‘ نوٹس نہ لینے یا بصد مجبوری ایسا کرنے کا اعلان اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ اس قسم کی باتیں صواب دیدی اختیارات میں شامل ہیں۔ گویا بات وہیں آکر ختم ہوئی کہ اداروں کے سربراہان قانون سے زیادہ بااختیار ہوئے اور اپنی مرضی و منشا کو جس کے حق میں چاہیں یا جس کے خلاف چاہیں استعمال کر سکتے ہیں۔
دوسرے سارے سیاسی لیڈروں اور ملک کے دانشوروں کی طرح جسٹس آصف سعید کھوسہ بھی یہ فرماتے نظر آئے کہ وقت آ گیا ہے کہ تمام اداروں کو ان کے دائرہ اختیار میں رکھنے کے لیے اداروں کے سربراہوں کے مابین مکالمہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وہ صدر پاکستان سے گزارش کریں گے کہ وہ اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں اور خود اس کی سربراہی کریں۔
کیا ان کا یہ فرمانہ اس جانب اشارہ کرتا ہوا نظر نہیں آرہا کہ پاکستان میں ایک پاکستان نہیں بلکہ کئی پاکستان ہیں اور ہر پاکستان کا سربراہ اپنے اپنے اختیارات کی وجہ سے پاکستان کا حکمران کہلانے کا مستحق ہے جبکہ پاکستان کا ایک ایسا ملک ہے جس کا ایک ایسا آئین ہے جو 100 فی صد متفقہ ہے اور اس میں سب اداروں کا دائرہ کار طے کردیا گیا ہے۔ جب ہر ادارے کے اختیارات اور دائرہ عمل آئین اور قانون میں طے کردیا گیا ہے تو تمام ادارے اس کے پابند کیوں نہیں ہیں؟، اور اگر کوئی ادارہ اپنے جامے سے باہر نکل رہا ہے تو عدالت کا کام کیا ہونا چاہیے؟۔ بجائے اس کے کہ عدالت ہر ادارے کو قانون کا پابند بنائے اور خلاف ورزی کرنے والے کو سزائیں سنائے، اگر وہ یہ کہتی نظر آئے کہ آؤ اپنے اپنے پاکستان کا حدود اربع طے کرلیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’’انصاف‘‘ کس چڑیا کا نام رہ جائے گا۔
جس طرح سب ادارے پارلیمان کو درخوراعتنا بھی نہیں سمجھتے اسی طرح آنے والے جسٹس کھوسہ بھی اس کو بائی پاس کرکے فرما رہے ہیں کہ صدر صاحب سب کو بلاکر ان کے اپنے اپنے پاکستان کا فیصلہ کروادیں۔ یہ کام صرف اور صرف پارلیمنٹ کا ہوتا ہے کہ وہ اختیارات کا فیصلہ کرے اور سچ یہ ہے کہ پارلیمنٹ ایسا 1973 میں طے کرچکی ہے اب یہ عدالت انصاف کا کام ہے کہ وہ ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں محدود کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سلسلے میں عدالت کو بہت قربانیاں دینا ہوں گی، ججوں کو لاپتا بھی ہونا ہوگا، قید و بند کی سختیاں بھی سہنا ہوں گی اور نوکریوں سے ہاتھ بھی دھونا پڑیں گے اس لیے کہ وہ جس جس ادارے کو پابند آئین و قانون کرنے کی جانب اشارہ کر رہے ہیں ان کو اپنے دائرہ اختیار کا پابند کرنا اگر عدالت کے بس میں ہوتا تو وہ کبھی کسی غیر آئینی مارشل لا کی حمایت نہ کرتی لیکن جب عدالتیں آئین توڑنے والوں کی پشت پناہی کے لیے تیار و آمادہ ہوں تو یہ پھر کسی بھی آئین توڑنے والے کے لیے سب کچھ کرگزرنا کیوں کر ممکن نہیں ہوگا۔
پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنادیا گیا ہے جس میں ہر آنے والے کو اجازت ہے کہ وہ اپنی اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق تجربے کرے شاید اسی لیے جسٹس سعد کھوسہ نے کہا کہ ملک میں حکمرانی کے انداز کو بہتر بتانے کے لیے ایک میثاق حکمرانی سامنے لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہم ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایں۔ انہوں نے کہا کہ وہ تجویز کرتے ہیں کہ میثاق حکمرانی کے لیے ہونے مذاکرات میں عدلیہ، انتظامیہ، مقننہ، مسلح افواج اور خفیہ اداروں کی اعلیٰ قیادت کو مدعو کیا جائے۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ابھی تک کسی بھی آئین و قانون کے بغیر چلایا جارہا ہے اور کہا نہیں جاسکتا کہ یہ سلسلہ کب تک دراز رہے گا۔
اس سارے بیان میں جو سب سے حوصلہ افزا بات ہے وہ یہ ہے کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ایک بار میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ان کی زندگی میں دو ہی مقصد رہ گئے ہیں ایک ڈیم بنانا اور دوسرا ملک کو قرضوں سے نجات دلانا۔ ’میں بھی کچھ ڈیم بنانا چاہتا ہوں، ایک ڈیم عدالتی مقدمات میں غیرضروری تاخیر کے خلاف، ایک غیرسنجیدہ قانونی چارہ جوئی اور جعلی عینی شاہدین اور جعلی گواہیوں کے خلاف اور یہ بھی کوشش کروں گا کہ قرض اتر سکے، زیرالتوا مقدمات کا قرض جنہیں جلد از جلد نمٹایا جائے۔ اب صرف دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایسا کر سکیں گے۔ کیا لاکھوں مقدمات تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔ کیا زیرالتوا مقدمات کا ڈیم تعمیر ہو جائے گا۔ اور قرض کی صورت میں جتنے بھی مقدمات ان کے حصے میں آرہے ہیں وہ سارے کا سارا قرض ادا ہوجائے گا۔ اللہ ان کی زبان مبارک کرے اور لوگوں کی زندگی کو کہیں سے تو قرار نصیب ہو۔ جہاں تک اس دل بے ایمان کا تعلق ہے وہ تو یہی کہتا ہے کہ
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مرنہ جاتے اگر اعتبار ہوتا