جھوٹ کا چلتا جھکڑ

238

 

اسی دن چھوٹے برخوردار اپنے دوستوں کے ساتھ کنڈیارو میں ایک دوست کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے نکلے تھے کہ ساہیوال میں ’’دہشت گردوں‘‘ کے مارے جانے کی خبر ہر ٹی وی چینل پر چلنے لگی۔ اہلیہ نے پریشان ہو کر پوچھا ’’کنڈیارو ساہیوال سے کتنا قریب ہے؟‘‘ ان کو تسلی دی کہ ساہیوال پنجاب میں ہے اور کنڈیارو سندھ میں۔ یہ جان کر بھی تشویش کم نہیں ہوئی کہ سندھ ہو یا پنجاب‘ پولیس تو ہر جگہ کی ایک سی ہوتی ہے۔ پھر انہوں نے کراچی سمیت پورے سندھ میں پیش آنے والے پولیس مقابلے گنوانے شروع کر دیے۔
یہ کوئی ایک ماں نہیں بلکہ ساہیوال سانحہ سے ہر ماں دہل کر رہ گئی ہے۔ کسی کا بچہ گھر سے باہر جائے تو ماں چوکھٹ پر بیٹھ کر یا حفیظ‘ یا حفیظ کا ورد شروع کر دیتی ہے اور بحفاظت لوٹ آنے پر شکر ادا کرتی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک کار کی تصویر گردش کر رہی ہے جس کے پیچھے لکھا ہوا ہے کہ ہم اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سفر کر رہے ہیں‘ ہمیں دہشت گرد نہ سمجھاجائے۔ لیکن پولیس اسے بھی ایک چال سمجھ سکتی ہے کہ یہ ’’کوراَپ‘‘ ہے‘ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔
کراچی میں جب حالات زیادہ خراب نہیں تھے‘ تب کی بات ہے کہ ایک سینئر سندھی صحافی رکشہ میں جا رہے تھے‘ پولیس نے ان کو روکا۔ موصوف نے رعب جمانے کے لیے کہہ دیا کہ وہ صحافی ہیں۔ پولیس والے نے کہا ’’کہاں کا صحافی‘ ابھی ایک گولی مار کر دہشت گرد قرار دے دوں گا۔‘‘ وہ تو خیر بچ گئے یا اس وقت تک پولیس زیادہ بے لگام نہیں ہوئی تھی لیکن خود کراچی میں متعدد ایسے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں یا تو دہشت گرد قرار دے کر اڑا دیا یا بہت مہربانی کی تو اٹھا کر غائب کردیا۔ اب ڈھونڈتے پھرو۔ لاپتا ہونے والوں کے لواحقین دعائیں کرتے ہیں کہ کہیں سے لاش نہ ملے ورنہ کچھ عرصے بعد یہ بھی ہوتا ہے۔ کتنے ہی نوجوان لاپتا ہیں۔
پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری بھی بول پڑے کہ سانحہ ساہیوال بچوں کے ساتھ گھروں سے نہ نکلنے کا پیغام ہے‘ تحریک انصاف نے ملک میں جنگل کا قانون نافذ کردیا۔ اب سنا ہے کہ آصف علی زرداری بلاول کو ساتھ لے کر نہیں نکل رہے۔
انتہائی شرم ناک اور مضحکہ خیز صورت حال یہ ہے کہ اس انسانی المیے پر جھوٹ پر جھوٹ بولا گیا ہے۔ اس کا آغاز خود سرکاری حملہ آوروں یعنی کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کی ٹیم نے کیا جو خطرناک دہشت گردوں سے نمٹنے کے لیے عام یونیفارم اور کچھ سادہ لباس میں تھے۔ اسے ان کی دلیری‘ جرأت اور بہت کہا جاسکتا ہے جو فوراً ہی دیدہ دلیری ثابت ہوئی۔ اتنے خطرناک دہشت گردوں کو 33 گولیاں مار کر خود بھاگ لیے کہ کہیں لاشیں اٹھ نہ بیٹھیں۔ ایسے مقابلے اور ہلاکتوں کے بعد جائے وقوع کی ناکہ بند کر دی جاتی ہے تاکہ شواہد ضائع نہ ہوں۔ سی ٹی ڈی نے پہلی اطلاع یہ دی کہ دہشت گرد بچوں کو اغوا کرکے لے جارہے تھے جنہیں بازیاب کرا لیا گیا۔ شاباش۔ لیکن بچے کہتے ہیں کہ ہم تو اپنے والدین کے ساتھ جا رہے تھے جنہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ سی ٹی ڈی نے پہلے کار سے بچوں کو باہر نکالا اور پھر سب کو مار دیا۔ مرنے والوں میں ایک 13 سالہ ’’دہشت گرد‘‘ بچی بھی تھی۔ بچوں کو بازیاب کرانے کا کارنامہ سرانجام دے کر ان بچوں کو پٹرول پمپ پر چھوڑ دیا گیا کہ یتیم ہونے کے بعد اب جہاں چاہے جاؤ۔
جھوٹ بولنا ان قاتلوں کا حق تھا کہ راؤ انوار اب بھی اپنے جھوٹ پر قائم ہے لیکن ان سے بڑھ کر پنجاب کے وزیر قانون راجا بشارت نے بے شرمی کا مظاہرہ کیا۔ اس کو پنجاب کا نیا رانا ثناء اللہ کہا جا رہا ہے اور غلط نہیں کہا جارہا۔ ایک بازاری محاورہ ہے ’’پڑی لکڑی اٹھانا‘‘۔ اس بے شرم شخص نے یہی کیا کہ فوری طور پر پریس کانفرنس کرکے سی ٹی ڈی کے موقف کی حمایت شروع کردی اور اس کے بعد تحریک انصاف کے ایک مشیر خاص افتخار درانی راجا بشارت کی حمایت میں آگئے۔ فیاض الحسن چوہان بھی کیوں پیچھے رہتے‘ گورنر پنجاب چودھری سرور فرماتے ہیں کہ ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے‘ ان کی پارٹی کے سربراہ عمران خان نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر تو آج تک نہیں کہا کہ ایسا تو دنیا میں ہوتا ہی رہتا ہے۔ صدر مملکت کہتے ہیں کہ ’’بچوں کے سامنے والدین کو شہید کیا گیا۔‘‘ اور وزیراعظم عمران خان کہتے ہیں کہ سخت صدمے میں ہوں۔ جن کو صدر مملکت شہید کہہ رہے ہیں ان کو پنجاب کی حکومت دہشت گرد قرار دے رہی ہے اور راجا بشارت کہتا ہے کہ ’’آپریشن سو فی صد شواہد کی بنا پر کیا گیا‘ یہ کام انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر ہوا۔‘‘ راجا بشارت کے لیے احترام کا کوئی لفظ استعمال کرتے ہوئے قلم رکتا ہے‘ شاید اس شخص کو جان نہیں دینی۔ کہتا ہے کہ 13 جنوری سے اس کار کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جارہی تھی۔ تو پہلے ہی کیوں نہ پکڑا؟ کیا اس بات کا انتظار تھا کہ بیوی‘ بچے ساتھ ہوں گے تو حملہ کیا جائے گا۔
ایک طرف راجا بشارت مقتولوں کو دہشت قرار دے رہے ہیں دوسری طرف پنجاب حکومت مقتولوں کے لیے 2 کروڑ روپے کا اعلان کر رہی ہے۔ کیا دہشت گردوں کو معاوضہ دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب لاوارث کر دیے گئے بچوں کے لیے پھول لے کر پہنچتے ہیں۔ کسی کے اعتراض پر کہا کہ میں تو نیا نیا حکومت میں آیا ہوں‘ مجھے کیا معلوم کہ جن بچوں کے والدین کو ہماری پولیس مار دے انہیں گلدستہ نہیں پیش کیا جاتا۔ عثمان بزدار کہتے ہیں کہ میں سب کو پھانسی نہیں دے سکتا‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کا انتظار کریں۔ انہوں نے اپنے وزیر قانون سے کیوں نہیں کہا کہ تحقیقاتی رپورٹ کا انتظار کرو‘ پہلے سے پریس کانفرنس کرکے قاتلوں کی صفائی پیش نہ کرو۔ دہشت گرد قرار دیے گئے ذیشان کے بھائی نے کہا کہ دہشت گرد میرا بھائی نہیں‘ راجا بشارت ہے۔ احتشام خود پنجاب پولیس کا ملازم ہے اور پولیس میں کسی کو ملازمت دینے سے پہلے پورے خاندان کی چھان بین کی جاتی ہے۔ یہ ثابت ہوگیا ہے کہ گاڑی چلانے والا ذیشان نہ صرف نہتا تھا بلکہ سیٹ بیلٹ بھی باندھ رکھی تھی۔ راجا بشارت کا یہ جھوٹ بھی سامنے آگیا کہ گاڑی کے شیشے کالے تھے اس لیے اندر بیٹھے ہوئے لوگ نظر نہیں آئے۔ لیکن جب پہلے بچوں کو گاڑی سے باہر نکالا تب بھی آنکھوں پر کالا چشمہ چڑھا ہوا تھا۔
ایک اور تماشا یہ ہوا ہے کہ بلاول زرداری سمیت پوری سندھ حکومت سانحہ کی مذمت کر رہی ہے جب کہ ابھی 440 افراد کا قاتل راؤ انوار آزادی سے گھوم رہا ہے جسے بلاول کے ابا آصف علی زرداری نے اپنا ’’بہادر بچہ‘‘ قرار دیا ہے۔ نقیب اللہ محسود کے ساتھ راؤ انوار نے ایک ایسے شخص کو بھی ہلاک کیا جسے پنجاب کی پولیس نے پورے محلے کے سامنے گرفتار کیا تھا۔ لیکن اسے بھی نقیب اللہ کے ساتھ شہید کر دیا گیا۔ یہ خون خاک نشیناں تھا نذرِ خاک ہوا۔
اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کے صاحبزادے حمزہ شریف ایوانوں میں چیخ رہے تھے کہ یہ ظلم ہے‘ وزیراعلیٰ پنجاب استعفا دیں‘ وزیر قانون مستعفی ہوں۔ شاید سانحہ ماڈل ٹاؤن پر شہباز شریف نے استعفا دے دیا ہو‘ کچھ ٹھیک سے یاد نہیں۔ وزیر قانون رانا ثناء اللہ البتہ چار ماہ بعد مستعفی ہوگئے تھے۔ اس سانحے میں 14 بے گناہ افراد مارے گئے تھے۔ قاتلوں کے چہرے سب کے سامنے تھے۔ اسی طرح بلاول اور سندھ حکومت احتجاج کر رہے ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن فیکٹری میں ڈھائی سو افراد کو زندہ جلا دینا‘ راؤ انوار کا مقدمہ اور گزشتہ سال جنوری میں کراچی میں پولیس کے ہاتھوں نوجوان انتظار کا قتل کچھ بھی یاد نہیں۔
’’قریب آگیا ہے لوگوں کے حساب کا وقت‘ اور وہ ہیں کہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (سورہ الانبیا: 1)