مسٹر بی بی سی ہم محض دعوے نہیں کرتے

306

منگل، 26 فروری 2019 کو جو کچھ بھی ہوا اس کا خلاصہ بی بی سی نے کچھ یوں پیش کیا ہے۔
پاکستان فوج نے منگل کی صبح دعویٰ کیا کہ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے مظفر آباد کے پاس کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کی۔
پاکستانی فوج کے مطابق جوابی کارروائی کے نتیجے میں انڈین طیارے واپس چلے گئے اور انہوں نے جلدی میں اپنا گولہ بارود گرا دیا جو بالاکوٹ کے قریب جابہ کے علاقے میں گرا۔
انڈین سیکرٹری خارجہ وجے گوکھلے نے اس کے برعکس دعویٰ کیا کہ ان کی فضائیہ نے بالاکوٹ میں واقع جیشِ محمد کے کیمپ پر حملہ کیا جس میں درجنوں دہشت گرد ہلاک ہوئے۔
پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس کارروائی کے جواب میں انہیں سرپرائز ملے گا جس کے وقت اور موقع کا تعین پاکستان خود کرے گا۔
بدھ کی صبح پاکستان نے دعویٰ کیا کہ اس کی فضائیہ نے پہلے ایل او سی کے پار اہداف کو نشانہ بنایا ہے اور پھر پاکستان میں داخل ہونے والے دو انڈین طیارے مار گرائے جبکہ ایک پائلٹ کو حراست میں لے لیا گیا۔
انڈیا کی جانب سے ونگ کمانڈر ’’ابھی نندن‘‘ کی واپسی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر کو طلب کر کے پاکستان کی جانب سے کنٹرول لائن کے پار کارروائی پر احتجاج ریکارڈ کروایا گیا۔
بی بی سی ایک ایسا خبر رساں ادارہ ہے جس کو ایک دنیا معتبر شمار کرتی آئی ہے اس لیے اس کی اس رپورٹنگ پر جس قدر بھی حیرت کا اظہار کیا جائے وہ کم ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حقیقت کو گمان خیال کرتے ہوئے واقعے کو صرف دعویٰ کہنا مناسب نہیں لگا۔ واقعہ یہ ہے کہ انڈین فضائیہ نے پاکستان کی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے علاقے میں نہ صرف داخل ہونے کی کوشش کی بلکہ وہ داخل بھی ہوئی لیکن ان کا خیال تھا کہ پاکستان غافل ہے اور اس کی غفلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ پاکستان کے شہری علاقوں میں بمباری کرکے پاکستان کے معصوم عوام کو رات کی تاریکی میں جانی و مالی نقصان پہنچا کر لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے میں کامیاب ہو جائے گا لیکن اس کی غافل سمجھنے کی یہ بھول، بھول ہی ثابت ہوئی۔ انڈین فضائیہ کے طیارے جونہی پاکستانی حدود میں داخل ہوئے ان کا تعاقب کیا گیا جس کی وجہ سے گھبراہٹ کے عالم میں راہ فرار اختیار کرنا پڑی اور رفتار بڑھانے اور پاکستانی شاہینوں کے خونخوار پنجوں سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے انہیں اپنے اوپر لدا بوجھ افراتفری کے عالم میں پھینک کر جانا پڑا۔ اللہ تعالیٰ کا بہت کرم ہے کہ ان کا پھینکا گیا بوجھ کسی ایسے مقام پر نہیں گرا جو کسی آبادی یا کسی تنصیب کے قریب ہوتا جس کی وجہ سے پاکستان کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا۔
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ بی بی سی نے انڈین سیکرٹری خارجہ وجے گوکھلے کے حوالے سے جس بیان کو ’’دعوی‘‘ کہا ہے کہ انڈین طیاروں نے پاکستان کی سرحدوں میں گھس کر پاکستان کے علاقے بالا کوٹ، بمقام ’’جابہ‘‘ میں واقع جیش محمد کے ایک کیمپ کو مکمل تباہ کرکے 350 سے زائد دہشت گردوں کو ہلاک کردیا ہے، وہ واقعی ایک دعویٰ ہی ہے کیوں کہ انڈین طیاروں نے افراتفری میں بھاگتے ہوئے جو ’’پے لوڈ‘‘ برسایا تھا وہ ویران علاقے میں گرا جس سے کسی انسان کا کیا کسی جانور تک کی ہلاکت نہیں ہو سکی البتہ گھاس پھوس اور چند درخت اس کی زد میں ضرور آئے۔ ہلڑ بازی میں اس نقصان کو بھی کافی خیال کرتے ہوئے انڈین میڈیا کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹے اور نقصان کا غلغلہ مچائے تو اس کو بے شک اس بات کا پورا پورا حق پہنچتا ہے اس لیے کہ ان کے جہازاور ہواباز پاکستانی حدود میں آنے کے بعد زندہ سلامت واپس چلے گئے یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
انڈیا کے اس بزدلانہ حملے اور دراندازی کو بی بی سی کا ’’دعویٰ‘‘ کہنا اس لحاظ سے بھی دعویٰ ہی ہے کہ اگلے دن جب اسی قسم کی ایک اور حرکت کی گئی تو اس کا بہت بڑا خمیازہ بھارت کو بھگتنا پڑا۔ دراندازی کرنے والے دونوں جہاز پاکستان کے شاہینوں کے ہاتھوں تباہ ہوئے جس میں سے ایک کا ملبہ پاکستان میں اور دوسرے کا ملبہ بھارت کے زیر تسلط کشمیر میں گرا۔ جہاز تو گراہی گرا، ایک پائیلٹ بھی زندہ گرفتا ہوا جس کی شکل پوری دنیا کو دکھا دی گئی اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کے حسن سلوک کو بھی دنیا پر آشکار کرکے پوری دنیا کو حسن خلق کا یہ پیغام دیا گیا کہ ہماری دشمنی جارحانہ رویوں کے خلاف ہے، بہکائے میں آئے جارح افراد کے خلاف نہیں۔
بھارت کے دعوے واقعی دعوے ہی ہیں اس لیے کہ اب خود بھارت کے سارے صحافی اور عوام اپنے ذمے داروں سے سوال کرتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان نے اگر جہاز گرانے کا دعویٰ کیا تو اس نے جہاز کا ملبہ بھی دکھا دیا اور گرفتار پائیلٹ کی شکل بھی دکھادی۔ اگر آپ کا دعویٰ دہشت گردوں کا کیمپ تباہ کرکے 350 دہشت گرد مار دینے کا ہے تو آپ زیادہ نہیں کسی ایک ہی دہشت گرد کی لاش دکھا دیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب اگر بھارت کے پاس ہوتا تو وہ پوری دنیا ہی نہیں، آسمان سر پر اٹھائے اٹھائے پھرتا۔
ایک جانب بھارت کا جھوٹ پر جھوٹ سامنے آتا جارہا ہے اور دوسری جانب دنیا کا دہرا معیار سامنے آتا جارہا ہے۔ امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو تجویز دی ہے کہ شدت پسند تنظیم جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو ’’بلیک لسٹ‘‘ کیا جائے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا ہے کہ یہ تنظیم انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں نیم فوجی اہلکاروں پر ہونے والے حملے کی ذمے دار ہے۔ رائٹرز کے مطابق اس بات کا امکان ہے کہ چین اس تجویز کی مخالفت کرے گا۔ اس سے قبل 2016 اور 2017 میں چین کی مخالفت کی وجہ سے سلامتی کونسل مسعود اظہر پر پابندیاں عائد کرنے میں ناکام رہی تھی۔ تاہم چین نے ابھی تک اس حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا ہے۔
حکمران جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما سینیٹر شبلی فراز نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ انڈیا کی جانب سے حالیہ فضائی خلاف ورزیوں اور اس پر پاکستان کے ردِعمل پر کل اداروں کی جانب سے ان کیمرہ بریفنگ دی گئی تھی۔ اگلے روز پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں تما جماعتوں کو اعتماد میں لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکمران جماعت اس مشترکہ نشست کے ذریعے بالعموم پاکستانی عوام اور بالخصوص دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ انڈیا کے ساتھ جاری کشیدگی کے معاملے پر ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاقِ رائے ہے۔
دشمن طاقتور ہو یا کمزور، دشمن دشمن ہی ہوتا ہے اور وہ نقصان پہنچانے کے ہر ہر پہلو پر نظر رکھے ہوئے ہوتا ہے اس لیے تیار وآمادہ رہنا بہت ضروری ہے۔ رحمان کیانی نے کیا خوب ارشاد فرمایا تھا کہ
’’جنگ‘‘ میں دوستو دشمنوں کو کبھی
خود سے کمتر سمجھنا بڑی بھول ہے
راکھ کو کم نہ سمجھو کبھی آگ سے
راکھ مانا کہ کچھ بھی نہیں دھول ہے
ہم نے دیکھا ہے بجھتی سی چنگاریاں
پھونک دیتی ہیں اچھی بھلی بستیاں
ختم جب تک نہ ہو جنگ تو جنگ ہے
سنگریزہ سہی سنگ پھر سنگ ہے
جنگ کسی طرح بھی اچھی نہیں لیکن اگر مسلط کر ہی دی جائے تو پھر ہر فرد و بشر پر لازم ہوجاتا ہے کہ اس کے آگے حوصلہ و ہمت کی ایک چٹان بن جائے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے نہ صرف جنگ کو جاری رکھنے کو انسانوں کے لیے تباہی و بربادی سے شمار کیا ہے لیکن اس عزم کا بھی اظہار کیا ہے کہ بھارت اس سے باز رہے گا۔ پاکستان کا جنگی جہاز گرائے جانے کو ایک مجبوری کہا ہے کہ ایسا سب کچھ دفاعی نقطہ نظر کے تحت کیا گیا ہے جو ہر آزاد ملک کا ایک حق ہے اس لیے بھارت اس نزاکت کو سمجھے، جارحیت کو فروغ نہیں دے کیوں کہ اس کا حاصل تباہی کے سوا اور کچھ نہیں۔ جوش ملیح آبادی اسی کشیدگی کے متعلق فرماتے ہیں کہ
پھر جدھر جاتا ہے میرا یہ جنون تند خو
پشت پر ہوتی ہیں لاشیں ہڈیاں ڈھانچے لہو
لہٰذا ضروری ہے کہ جنگی جنون کو ہوا دینے کے بجائے امن و آشتی کو فرغ دیا جائے اور جنگ کے جو شعلے بھڑکنے کے لیے مضطرب ہیں ان پر امن کے پانی کا اسپرے کیا جائے تاکہ خطہ کسی خوں خوار عفریت کی لپیٹ میں نہ آجائے۔