کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) فنڈز مافیا نیگلیریا کے نام پر بھاری رقوم سمیٹنے کے لیے سرگرم ہو گئی، رمضان المبارک سے دس پندرہ روز قبل ہی نیگلیریا کے بارے میں افواہیں اور خبریں گرم کرنے کا کاروبار شروع کر دیا گیا، ’’مفاد پرست‘‘ عناصر اس سال بھی رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی سرگرم ہو گئے، شہریوں کو خوف زدہ کرنے اور کروڑوں روپے کے فنڈز کے حصول کے لیے ’’نیگلیریا فاؤلری‘‘ کا ہوا کھڑا کر دیا گیا ہے، ہر سال رمضان سے قبل نیگلیریا فاؤلری کو ایشو بنا کر مہم چلائی جاتی ہے، اخبارات و چینلز کے ذریعے کروڑوں روپے کے اشتہارات جاری کر کے اس جرثومے کی ’’ہلاکت خیزی‘‘ سے شہریوں کو خوف زدہ کیا جاتا ہے، کمیٹی بنائی جاتی ہے، کروڑوں روپے کے فنڈز کا اجراء کرایا جاتا ہے، دو چار علاقوں سے پانی کے نمونے ’’لیبارٹری ٹیسٹ‘‘ کرائے جاتے ہیں، چند ایک مشہور سوئمنگ پولز پر ’’چھاپے‘‘ مارے جاتے ہیں اور ان کو ’’سیل‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ بعد ازاں بھاری رقوم کے حصول کے بعد انہیں ’’کلیئر‘‘ کر دیا جاتا ہے رمضان کا نصف گزرتے ہی تمام حالات معمول پر آ جاتے ہیں اور نیگلیریا فاؤلری ’’تحلیل‘‘ ہو جاتا ہے اور رمضان کے بعد تو اس کا ذکر بھی نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک خبر منظر عام پر آ گئی ہے کہ رواں سال کراچی میں نیگلیریا سے پہلی ہلاکت سامنے آ گئی، اورنگی ٹاؤن کا رہائشی21 سال کا طالب علم انس انتقال کر گیا۔ اورنگی ٹاؤن کا رہائشی 21 سال کا طالب علم انس ولد اسلم جناح اسپتال میں داخل تھا۔ ڈاکٹر سیمیں جمالی کے مطابق طبی ٹیسٹ میں نیگلیریا کی تصدیق ہوئی، انس کو تیز بخار کے ساتھ18 اپریل کوجناح اسپتال لایا گیا تھا۔ نیگلیریا سے ہلاکت سامنے آتے ہی محکمہ صحت کی جانب سے فوری طور پر 5 رکنی ’’انسداد نیگلیریا کمیٹی‘‘ قائم کر دی جائے گی لیکن المیہ یہ ہے کہ کبھی بھی اس کی رپورٹ میڈیا سے شیئر نہیں کی جاتی، اسپتالوں کو ہدایت کر دی جاتی ہے کہ وہ دو چار مریضوں کو ’’نیگلیریا فاؤلری‘‘ سے’’ متاثرہ‘‘ ظاہر کر دیں بالکل اسی طرح عیدالاضحیٰ سے قبل بھی ’’کانگو وائرس‘‘ کا شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے اور ’’الرٹ‘‘ جاری کر دی جاتی ہے۔ کبھی یہ ذمے داری سرکاری اسپتال کو دی جاتی ہے تو کبھی یہ کام نجی اسپتال کو سونپ دیا جاتا ہے۔ ہوگا یہ کہ انسداد نیگلیریا کمیٹی ’’فعال‘‘ ہو کر پمپنگ اسٹیشنوں، سوئمنگ پولز اور دیگر آبی ذخائر کا دورہ کر کے پانی کے نمونے حاصل کر کے ’’لیبارٹری ٹیسٹ‘‘ کرائے گی اس کے پورا سال کے لیے معاملہ ختم ہو جائے گا۔ گزشتہ برس بھی ’’جسارت‘‘ نے طبی ماہرین سے اس حوالے سے بات کی تھی تو ان کا یہی کہنا تھا کہ وضو یا غسل کے دوران ناک میں پانی ڈالنے یا پینے سے اس نیگلیریا فاؤلری کا کچھ اثر نہیں ہوتا، شہری اطمینان کے ساتھ وضو وغیرہ کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ دماغ خور امیبا ’’نیگلیریا فاؤلری‘‘ پہلی مرتبہ 1960ء میں آسٹریلیا میں دریافت ہوا تھا اور اس کے بارے میں خیال یہ تھا کہ عموماً سوئمنگ پولز میں پایا جاتا ہے اور دوران تیراکی ناک کے ذریعے دماغ تک پہنچ جاتا ہے۔ سینٹرل آف ڈیزیز کنٹرول پریوینیشن کے مطابق اس جرثومے کا ٹھکانہ آلودہ پانی ہے خواہ وہ دریا، جھیل، تالاب، نلکے، کنویں یا سوئمنگ پول کا ہو یا گلی محلوں میں قائم ریسٹورنٹ یا مہنگے ہوٹلز غرض ہر طرح کا آلودہ پانی جو ہماری ناک میں کسی بھی ذریعے سے جائے اس امیبا کو انسانی دماغ تک پہنچانے میں معاون ہے، یہ دیگر جرثوموں کی طرح عام آنکھ سے دیکھا نہیں جا سکتا کیوں کہ اس کا سائز محض آٹھ سے پندرہ مائیکرو میٹر ہوتا ہے۔ اگر یہ جرثومہ حقیقت بھی ہے تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماہرین کے مطابق نیگلیریا فاؤلری آلودہ پانی کا جرثومہ ہے اور اس کا خاتمہ پانی میں مقررہ مقدار میں کلوری نیشن کے عمل ہی سے ممکن ہو سکتا ہے اور واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی جانب سے کبھی بھی کروڑوں شہریوں کو کئی دہائیوں سے مطلوبہ کلوری نیشن کے مطابق پانی فراہم ہی نہیں کیا گیا اور نہ ہی تا حال کیا جا رہا ہے تو ایسے میں اب تک ہلاک شدگان کی تعداد تو لاکھوں میں ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اور یہاں کے لوگ اپنی مذہبی عبادات مکمل عقیدت و جوش و خروش سے بجا لاتے ہیں اور ماہ رمضان میں قریباً ہر شہری ہی مساجد کا رخ کرتا ہے اور نماز کے لیے اہم ترین جزو پاکیزگی یعنی وضو کرنا ہے اور وضو کا اہم رکن ناک میں پانی ڈالنا بھی ہے تو ایسے میں عین رمضان سے چند روز قبل ہی اس دماغ خور امیبا ’’نیگلیریا فاؤلری‘‘ کا ہوّا کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ لوگ خوف زدہ ہو کر وضو کرنے سے گریز کریں۔