مسائل کا حل صدارتی نہیں اسلامی نظام ہے

180

 

 

لگتا ہے جیسے ہر سیاسی پارٹی کو یہ احساس ہو چلا ہے کہ ملک میں کسی وقت بھی الیکشن کی کال دی جاسکتی ہے۔ وہ پارٹی جس کے پاس ملک کا تخت و تاج ہے اور وہ پارٹیاں جو اپوزیشن میں ہیں، پورے ملک میں اس طرح عوامی طاقت کا مظاہرہ کرتی نظر آرہی ہیں جیسے الیکشن آیا ہی چاہتا ہو۔ الیکشن سے پہلے تو اس قسم کی گہما گہمی معمول کا حصہ ہوا ہی کرتی ہے لیکن الیکشن کے بعد بھی جس انداز میں حکومت اور اپوزیشن جلسے جلوس اور ریلیاں کرتی نظرآرہی ہے، یہ اپنی جگہ ایک تعجب خیز بات ہے اور اس بات کی علامت ہے کہ اپنے اپنے حلقہ اثر کو قائم رکھنے کے لیے حکومت ہو یا اپوزیشن، دونوں کو اس بات کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ مسلسل عوام کے درمیان رہا جائے۔
کراچی میں ایم کیو ایم (پاکستان) کی جانب سے پاور شو کی ایک ناکام کوشش سامنے آئی جس میں تقسیم در تقسیم کا اثر صاف دیکھا جاسکتا تھا۔ میں تو اس قسم کے جلسے کو جلسہ ماننے کے لیے تیار ہی نہیں تھا لیکن گزشتہ دن جب پی ٹی آئی کا جلسہ ہوا اور اس میں جو کچھ سامنے آیا اس کو دیکھ کر مجھے اپنی رائے سے خود ہی اختلاف کرنا پڑا اس لیے کہ جو بدنظمی، ہلڑ بازی، آپس میں دست و گریبان ہونا، کرسیاں چلانے اور خشت باری کے نظاروں کے علاوہ اپنی ہی قیادت کے خلاف نعرے بازی وہاں دیکھنے میں آئی اس کو دیکھتے ہوئے مجھے ایم کیو ایم (پاکستان) کی کال پر جمع ہونے والے چند سو افراد بھی ایک بڑا جلسہ لگنے لگے۔
ایم کیو ایم (پاکستان) 2018 کے الیکشن میں کراچی کی 21 نشستوں میں سے صرف 4 نشستیں ہی حاصل کرسکی تھی جبکہ پی ٹی آئی نے 14 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ 30 سال بعد ایسا ہوا تھا کہ کسی بھی جماعت نے ایم کیو ایم کے خلاف ایسی بھرپور کامیابی حاصل کی ہو۔ یہ ایک بہت بڑی تبدیلی تھی اور توقع کی جارہی تھی کہ اس سے کراچی میں ایک بہت مختلف اور خوش کن فضا قائم ہوگی۔ وہ جماعت جس کو کراچی جیسے شہر میں 14 نشستیں ملی ہوں، اگر وہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد بھی عوامی طاقت کا مظاہرہ کرنے میں نہ صرف بری طرح ناکام ہو جائے بلکہ اپنے اندر کے اختلافات کی ساری غلاظت کو سرعام نکال باہر کرے اور غیر مذہب انسانوں کی طرح عورتوں، بچوں اور بچیوں کا لحاظ کیے بغیر ایک دوسرے پر دشمنوں کی طرح حملہ آور ہو تو شہر کراچی کے لیے یہ بہت افسوس ناک خبر ہے۔ پی ٹی آئی کے جلسے میں جو کچھ بھی ہوا وہ بہت افسوس ناک اور مایوس کن تھا۔ اہل کراچی اس بات کی شاید توقع نہ رکھتے ہوں لیکن جو اہل فہم و فراست ہیں وہ یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ عوام کی حقیقی تائید اور زبردستی کے نتائج میں فرق ہوتا ہے۔ گلشن اقبال وہ واحد علاقہ تھا جہاں سے عمران خان کو 95 ہزار ووٹ ملے تھے لیکن اسی نشست پر ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے کامیاب امید وار کو صرف 30 ہزار سے کچھ اوپر ووٹ ملے تھے۔ 65 ہزار وہ ووٹ جو ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کو نہیں مل سکے تھے، اگر اس پر غور کرلیا جاتا تو کل کے جلسے میں جس شرمندگی کا سامنا پی ٹی آئی کو کرنا پڑا وہ شاید نہ کرنا پڑتا۔ ضمنی الیکشن میں 65 ہزار ووٹ کا پی ٹی آئی کے لیے کاسٹ نہیں ہونا اس بات کی نشانی تھی کہ وہ ووٹ پی ٹی آئی کے نہیں عمران خان کے چاہنے والوں کے تھے۔ پی ٹی آئی کی الیکشن میں کامیابی کے بعد نہ صرف مرکز میں حکومت قائم ہوئی بلکہ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی حکومت پی ٹی آئی کے
حصے میں آئی۔ خیبر پختون خوا میں تو حکومتی پارٹی کی واضح اکثریت تھی ہی ساتھ ہی ساتھ بلوچستان میں بھی جو حکومت تشکیل پائی اس میں بھی اہم کردار پی ٹی آئی ہی کا ہے۔ اس طرح پی ٹی آئی مرکز ہی میں نہیں تین صوبوں میں بھی اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئی۔ یہاں حیرت کی بات یہ ہے کہ جس کو اتنے وسیع پیمانے پر سیاسی کامیابیاں ملی ہوں اور پاکستان میں پہلی مرتبہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل تائید اور تعاون نصیب ہوا ہو، جی ایچ کیو میں سلوٹ مارے گئے ہوں اور توپوں کی سلامیاں پیش کی جارہی ہوں اس حکومت کو اچانک پارلیمانی جمہوریت میں کیڑے کیوں نظر آنے لگے۔ اتنے بڑے پیمانے اور وہ بھی عوام کی بھرپور تائید کے ساتھ کامیابی کے بعد اگر یہ حکومت ’’صدارتی‘‘ نظام میں اپنی مضبوطی زیادہ محسوس کر رہی ہو اور جیت کے بعد صدارتی نظام رائج کرنے کی خواہاں تو ہر سیاسی پارٹی اور عام آدمی کا اس پر حیرت کا اظہار تو لازماً بنتا ہے۔ لہٰذا امیر جماعت سراج الحق کا یہ کہنا کہ ’’صدارتی نظام کی آئین پاکستان میں سرے سے کوئی گنجائش موجود نہیں۔ محض ریفرنڈم کے ذریعے اس تجویز پر رائے لینا بھی غیر آئینی ہوگا اور آئین ختم کیے بغیر اس طرح کاکوئی ریفرنڈم نہیں ہوسکتا‘‘۔ سو فی صد بجا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ آئین میں ترمیم عمل میں لائی جائے۔ اگر کوئی اور طریقہ اختیار کیا گیا تو یہ طرز عمل ریاست کے لیے نہایت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ امیر جماعت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’تبدیلی کے نعروں اور نیا پاکستان بنانے کے دعوئوں کے نام پر برسراقتدار آنے یا لائی جانے والی حکومت محض 9 ماہ میں ہی مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئی ہے۔ موجودہ برسراقتدار حکومت نے اگرچہ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کو اپنا ماڈل کہا ہے لیکن بدقسمتی سے انہوں نے 9 ماہ میں اس سمت ایک قدم بھی نہیں اٹھایا بلکہ ماضی کے حکمرانوں کی طرح سودی معیشت، بیرونی قرضوں پر انحصار، عالمی اداروں کی فرماں برداری اور مغربی تہذیب کے فروغ کا ہی راستہ اپنایا ہے۔ جس کی وجہ سے معیشت اصلاح پزیر ہونے کے بجائے تیزی سے زوال پزیر ہے۔
ایک بہت آسان اور سامنے کی بات کسی کی سمجھ میں آکر ہی نہیں دے رہی اور وہ یہ ہے کہ جب تک پاکستان کو اس کے حقیقی مقصد وجود کی جانب لوٹایا نہیں جائے گا اس وقت تک پاکستان کسی بھی صورت پاکستان نہیں بن سکے کا۔ نعت کا ایک مشہور شعر ہے کہ
میں مریض عشق رسول ہوں جو کرو تو میری دوا کرو
کوئی نام سرور دیں کا لو کوئی ذکر شاہ ہدیٰ کرو
پاکستان بھی اْسی وقت پاکستان بن سکے گا جب اس کی دوا کی جائے گی اور پاکستان کی دوا وہ نظام ہے جو محمد عربیؐ لیکر آئے ہیں۔ پاکستان اسی نظام کے نفاذ کے لیے بنایا گیا تھا اور اس کے بغیر اس کا زندہ رہنا کسی صورت ممکن نہیں۔ اسی لیے امیر جماعت کا یہ کہنا ہے کہ ’’پاکستان کو صدارتی نہیں قرآن کے نظام کی ضرورت ہے۔ پاکستان ایک جغرافیہ نہیں ایک نظریہ اور عقیدہ ہے جس سے حکمران 70 سال سے غداری کر رہے ہیں‘‘۔ سو فی صد درست اور بجا ہے۔
ہم آئین پاکستان کی کسی بھی خلاف ورزی پر کسی کو غدار کہہ کر واجب القتل قرار دینے میں دیر نہیں لگاتے لیکن وہ حکمران جو مسلسل اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی خلاف ورزی کرتے چلے آرہے ہیں ان پر کوئی حد کیوں جاری نہیں کرتے؟۔ اس لحاظ سے امیر جماعت کی یہ بات بہت اہمیت رکھتی ہے کہ اسلامی نظام سے غداری دنیا کے ہر آئین و قانون کی خلاف ورزی سے سے کہیں زیادہ قابل گرفت ہے۔ اس بات پر صرف حکمرانوں کو ہی نہیں، ہر مسلمان کو غور کرنا ہوگا۔