جان کی امان پاوں تو

353

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس میں کہی گئی بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق اگر کچھ سوالات پوچھ لیے جائیں تو ایسا کرنا ”ریاست“ کی ناراضی مول لینے کے مترادف تو نہیں ہوگا؟۔ اگر ”ریاست“ کو برا نہ لگے تو پہلی بات یہ معلوم کرنا تھی کہ جب بھی آپ کی جانب سے لفظ ”ریاست“ استعمال ہوتا ہے تو مجھ کم عقل کو یوں کیوں لگتا ہے جیسے ریاست کا مطلب ”آپ“ ہیں۔ پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا کہ پاکستان کے عوام میں ”آپ“ کی جانب سے تلخیاں پیدا ہو رہی ہوں۔ ایسا متعدد بار ہوا ہے لیکن یہ دوریاں بہتر طرز عمل اور دوطرفہ افہام و تفہیم کے سبب قربتوں میں بھی بدلتی رہی ہیں۔ اس بات میں آپ کو شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستانی قوم آپ (ریاست) سے بہت محبت کرتی آئی ہے۔ جس سے محبت ہوتی ہے شکایت بھی اسی سے ہی ہوتی ہے۔ محبت کرنے والے جواب میں محبت کے طلب گار ہوا کرتے ہیں اور جب جواب بے رخی یا باس کے لہجے میں آنا شروع ہوجائے تو محبت محبت نہیں رہتی، تعلق بن جاتی ہے اور تعلق کا دوسرا نام برابری ہوا کرتا ہے۔ آپ 58 میں سارے آئین و قانون کو پامال کرتے ہوئے آئے، قوم نے خوش آمدید کہا، طاقت کے ذریعے آدھے پاکستان کو دبانے کی کوشش میں اپنا آپ ہی تباہ کر بیٹھے، قوم نے وہ دکھ بھی برداشت کیا۔ کئی جمہوری ادوار پر شب خون مارا لیکن قوم آپ ہی کو خوش آمدید کہتی رہی۔ افغانستان کی صورت حال کا حل لوگوں میں جذبہ جہاد کو ابھارنے میں تلاش کیا، نتیجے میں ہزاروں شہید ہوئے اور لاکھوں بے گھر ہوئے، پھر بھی قوم نے اسے اچھا ہی جانا لیکن جب آپ نے ان بہادروں کے خلاف کارروائیاں کیں تو کیا ان کی شکایت بے جا تھی؟۔ کیا لال مسجد آپریشن خلاف انسانیت نہیں تھا؟۔ کیا ان کا مطالبہ شریعت کے نفاذ کے سوا بھی کچھ اور تھا۔ کیا آج بھی جن کو بمباری کرکے نیست و نابود کیا گیا اور کیا جارہا ہے، ان کا مطالبہ قیام شریعت کے علاوہ بھی اور کچھ ہے؟۔ لاپتا افراد کے متعلق سوال پرآپ کا یہ کہنا کہ ”جنگ میں سب جائز ہے“ تو پھر جنگ تو دوطرفہ ہوتی ہے لہٰذا اس قانون کا اطلاق یک طرفہ تو ہو نہیں سکتا۔
آپ نے فرمایا کہ پختون ہر اس فرد کو ماردیتے ہیں (آپ کے خیال میں) جو پاک فوج کے لیے زندہ باد کا نعرہ لگاتا ہے، لیکن کیا ا±س کو لا پتا نہیں کردیا جاتا جو ”آپ“ کے خلاف نعرہ لگاتا ہے؟۔ باتیں دونوں ہی غلط ہیں۔ کسی کی غلط بات یا ردعمل کو اپنے لیے جواز نہیں بنایا جاسکتا۔ اگر کوئی فوج کی حمایت کرنے پر مار دیا جاتا ہے تو لازم ہے کہ مارنے والے کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے خواہ وہ فوجی عدالتیں ہی کیوں نہ ہوں لیکن یہ کون سا قانون ہے کہ کسی فرد کو کئی کئی برس بعد بھی عدالت میں پیش نہ کیا جائے یہاں تک کہ ان کے لواحقین کو اس بات کا علم تک نہ ہوسکے کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ پختون تحفظ موومنٹ کا وقت ختم ہوگیا۔ کیا ہم معلوم کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ ان کا وقت شروع ہی کیوں ہونے دیا گیا تھا؟۔ بیماری جب سارے جسم میں سرائیت کر چکی ہے تب آپریشن کے فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اگر مہلت دینے والے اور مہلت ختم کرنے والے آپ (ریاست) ہی ہیں تو مرض کو اس حد تک بڑھا دینے کی ذمے داری کس پر ڈالی جائے؟۔ آپ کا کہنا ہے کہ جب گلے کاٹ کاٹ کے فٹبال کھیلی جارہی تھی تو پی ٹی ایم والے کہاں تھے؟۔ سوال یہ ہے کہ آپریشن در آپریشن کرنے والے خود کہاں تھے؟۔ سوال یہ نہیں کہ ”داوڑ“ کو کس نے مارا، سوال یہ ہے کہ وہ پاکستان سے افغانستان کیسے پہنچا؟۔ داوڑ ہی کیا، سلمان تاثیر کا بیٹا ہو یا گیلانی کا فرزند، یہ سب ہزاروں کلو میٹر کی پٹی طے کرکے افغانستان تک کیسے پہنچتے رہے۔ یہ بات درست نہیں کہ پی ٹی ایم والے صرف ہر اس فرد سے ملتے ہیں جو پاکستان مخالف ہے، وہ آپ سے بھی ملتے رہے ہیں، پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم سے بھی ملتے رہے ہیں، پارلیمان کے ارکان سے بھی ملاقاتیں کرتے رہے ہیں اور جن جن محکموں نے ان کو دعوت دی ہے ان سب سے ملاقاتیں کرتے رہے ہیں۔ ان کی یہ ملاقاتیں نہایت نہ پسندیدہ سہی لیکن کیا خود ”ریاست“ ان بڑے بڑے دہشت گردوں سے نہیں ملتی رہی یا ان کو گلے نہیں لگاتی رہی جو صرف پاکستان ہی میں دہشت گردی نہیں پھیلاتے رہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر ان پر بڑے بڑے الزامات ہیں اور وہ کئی برسواں سے اقوام عالم کو مطلوب ہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی سوال جس کا جواب طلب کرنا کیا قوم کا حق نہیں بنتا؟۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ راو¿ انوار کو کوئی ”بہادر بچہ“ کہتا ہے یا نہیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا راو¿انوار سیکڑوں معصوموں کا قاتل ہے یا نہیں؟۔ اگر راو¿ انوار مجرم ہے تو اس کی حمایت کرنے والے کو بھی سزا ملنی چاہیے۔ یہ سوال اٹھانا کہ اسے کون کیا کہتا ہے اور کیا نہیں، بہت ہی نامناسب سی بات ہے۔ پاکستان کو 1971 میں بھی سخت رویہ اختیار کرنے کے بعد سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ سختیاں اور جارحیت کے نتیجے ہیں کہ ہر آنے والے دن آپ عوام سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ جس تیزی اور برق رفتاری کے ساتھ اب آپ (ریاست) کی جانب سے غداریوں کی اسناد جاری ہونا شروع ہو گئی ہیں لگتا ہے کہ ”پاکستانی“ عن قریب اقلیت میں چلے جائیں گے۔ سیاسی پارٹیاں تو یہ اسناد بانٹا ہی کرتی تھیں، اب اگر آپ کی جانب سے یہ سلسلہ چل نکلا ہے تو اللہ ہی خیر کرے۔ مجھ عاجز کا اتنا ہی کہنا ہے کہ ہم سب پاکستانی ہی ہیں۔ ادارہ ریاست نہیں ہوتا۔ اگر کسی کو ادارے سے کوئی شکایت ہے تو اس کو پورا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اس سے جواب طلب کرے۔ اگر ریاست ادارہ ہوتا تو وہ ”حکومت“ ہی ہوتی کیوںکہ باقی تمام ادارے حکومت کے تحت ہوتے ہیں۔ جب حکومت کو گرایا بھی جاسکتا ہو، دن رات اس پر نتقید کی جاسکتی ہو، اس کے سربراہ کو کھری کھری سنائی بھی جاسکتی ہوں، عدالتوں میں کھینچا بھی جاسکتا ہو، نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہو اور اسے ملک بدر بھی کیا جاسکتا ہو تو پھر حکومت کے ایک ادارے (آپ) کے خلاف باتیں کرنا کیسے خلاف قانون و ریاست ہوگیا۔ اس نقطے پر آپ کو اور ہم سب کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا ہوگا اور اپنے اپنے رویوں کا جائزہ بھی لینا ہوگا اسی میں پاکستان (ریاست) کا وقار اور سلامتی ہے۔