نقل کی سرپرستی۔۔۔۔ قوم کے ساتھ دشمنی ہے

302

میٹرک اور انٹر کے امتحانات شروع ہوتے ہی نقل مافیا کا زور و شور سے ذِکر کیا جانے لگتا ہے، یہ بات ہر دفعہ کچھ اس شدت سے آتی ہے کہ لگتا ہے اس دفعہ امتحانات میں جس زور و شور سے نقل کی جارہی ہے پہلے نہیں ہوئی تھی، لیکن بات یہ ہے کہ معاملات ایک دم سے نہیں بگڑتے، آہستہ آہستہ ہی شدت پکڑتے ہیں۔ تعلیمی نظام میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا کبھی ازالہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ کرپٹ لوگوں کو منصوبہ بندی کے ساتھ اس شعبے میں آگے بڑھایا گیا۔ اب اگر صوبائی وزیر تعلیم کے ترجمان یہ کہتے ہیں کہ 140 سے زیادہ افراد کو جو نقل میں ملوث تھے معطل کردیا گیا جن میں ناظم امتحانات، ہیڈ ماسٹر اور کنٹرولر بھی شامل ہیں، ان کی تنخواہیں روک لی گئیں اور مزید انکوائری کمیشن بھی بنادیے گئے۔ اب اس بات پر کون اور کیسے یقین کرے۔ حال یہ ہے کہ مراکز پر تعینات ایکسٹرنل اور انٹرنل نقل کرانے میں معاون و مددگار ہیں، کراچی اور اندرون سندھ پیپرز پہلے ہی سوشل میڈیا پر لیک ہوجاتے ہیں۔ چیٹنگ گروپس میں یہ شیئر کیے جاتے ہیں بلکہ بہت سے ایسے گروپ خاص طور پر اسی مقصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔ عموماً پرچہ سوشل میڈیا پر اُس وقت آتا ہے جب طلبہ امتحانی مراکز پہنچ چکے ہوتے ہیں۔ ایسے میں طلبہ و طالبات آخری وقت میں ایسے فون کے ذریعے سوالات دیکھ لیتے ہیں، ایک گھنٹے قبل پیپر آئوٹ ہونے کی زیادہ ذمے داری مراکز کے ڈیوٹی آفیسروں اور نگران امتحان کے اوپر آتی ہے کیوں کہ انہیں ہی پیپر ایک گھنٹے قبل فراہم کیا جاتا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے نقل مافیا کو بڑی آسانی ہوگئی ہے، ویسے سندھ میں نقل مافیا اتنی طاقتور ہے کہ مراکز میں علیحدہ کمروں میں نقل کرانے کا انتظام ہوتا ہے جس کے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں بھی اس میں ملوث ہیں بلکہ دبائو ڈال کر اسکولوں کے ہیڈ ماسٹروں اور نگرانوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں اور وہ اس سلسلے میں بے بس ہوتے ہیں کیوں کہ نقل مافیا کے بدمعاش سیاسی کارکن انہیں دھمکاتے ہیں۔ نقل کی دیمک لگانے میں برسوں حکومت میں رہنے والی جماعتیں شامل ہیں، انہوں نے طالب علموں کو نقل کے نشے کا عادی بنادیا ہے، طلبہ و طالبات دونوں میں نقل کا رجحان رچ سا گیا ہے کیوں کہ وہ عام طور پر یہی دیکھتے رہے ہیں کہ نقل کے ذریعے نکھٹو طلبہ کہیں سے کہیں پہنچ جاتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ایمانداری سے اور اپنی قابلیت پر سے اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ وہ والدین بھی اس کے قصور وار ہیں جو اپنے بچوں کو کامیاب کروانے کے لیے ہر ہتھکنڈا استعمال کرتے ہیں، یہ ان بچوں کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے جو پورے سال محنت کرتے ہیں، اگر سمجھا جائے تو زیادتی تو ایسے والدین خود اپنے ساتھ بھی کررہے ہوتے ہیں۔ وہ اپنے غیر مستحق اور قابلیت نہ رکھنے والے بچوں کو اہم اور حساس مقامات پر داخل کروارہے ہوتے ہیں۔ اب بھلا بتایئے کہ میڈیکل، انجینئرنگ، حکومتی عہدیدار قابلیت نہیں رکھتے ہوں تو وہ اپنی خدمات کو اعلیٰ درجہ پر کیسے پہنچا سکتے ہیں، جیسے کہ آج کل ہورہا ہے یہ پوری قوم کا نقصان ہے۔
یہ بات سب کو سمجھنا اور سمجھانا ہوگی کہ تعلیم کا مقصد محض کاغذ کے ٹکڑے کا حصول نہیں ہے۔ اہلیت کے بغیر ڈگری کوئی معنی نہیں رکھتی اور عملی زندگی میں اس سے شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں شرمندگی کو بھی فخر بنانے کا سوچا جاتا ہے۔ اسمبلی کے ممبر جب فخر سے کہتے ہیں کہ ’’ڈگری ڈگری ہوتی ہے اصلی ہو یا جعلی‘‘۔ پھر بھلا کون سمجھا سکتا ہے۔ اگرچہ سکھر میں سول سوسائٹی نے ایک انوکھے طریقے سے احتجاج کرکے سمجھانے کی کوشش کی، انہوں نے امتحانات میں کھلے عام نقل کے خلاف مظاہرہ کیا جس میں انہوں نے گدھوں کے اوپر کتابیں رکھ کر محکمہ تعلیم کے افسروں کے خلاف خوب نعرہ بازی کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ محکمہ تعلیم کے افسران نقل کو فروغ دے کر ہمارے بچوں کا مستقبل تباہ کررہے ہیں۔ طریقہ تو دلچسپ ہے لیکن جب تک حکومتی سطح پر دیانت دار اور ایمان دار لوگ نہیں لائے جائیں گے معاملات ایسے ہی چلتے رہیں گے۔ اگر بحیثیت قوم ہم نے یہ بات نہیں سمجھی تو ہم خود اپنے مستقبل کو اپنے ہاتھوں تاریکیوں کے حوالے کردیں گے۔ ترقی تعلیم ہی سے ملتی ہے، تعلیم کو نقل مافیا کے چنگل سے نہ بچایا گیا تو معاشی خوشحالی اور ترقی خواب بن جائے گا، ہمارے پاس نوجوانوں کی تعداد دنیا کے ہر ملک سے زیادہ ہے، ضرورت یہ ہے کہ قوم اس مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے پوری لگن اور جذبے سے آگے بڑھا جائے۔ ہر فرد اپنی جگہ اپنی ذمے داری کو سمجھے۔ اساتذہ والدین اور طالب علم یہ تینوں مل کر حکومت پر دبائو ڈالیں۔ نقل کے ناسور کو ختم کرنے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالیں۔
امتحانی مراکز میں موبائل فون کی پابندی ہونی چاہیے تا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نقل کو روکا جاسکے، اس کے علاوہ علاقے میں موبائل فون جامر بھی لگائے جاسکتے ہیں، نقل میں ملوث لوگوں کے خلاف سخت ایکشن لینا چاہیے، سیاسی جماعتوں کو اپنے طور اپنے اندر موجود ایسے لوگوں سے ایسے نمٹنا چاہیے کہ کوئی دوبارہ ایسی حرکت نہ کرسکے، کیوں کہ یہ قوم کے مستقبل کا سوال ہے۔ خیبرپختونخوا، بلوچستان اور پنجاب تینوں صوبائی حکومتیں اس نقل مافیا سے نمٹنے میں سنجیدہ نظر آتی ہیں کیوں کہ انہوں نے اسے اپنی ترجیحات میں شامل کیا ہے لیکن سندھ کی حکومت اس معاملے میں مسلسل پچھلے کافی عرصے سے انتہائی لاپروا رہی ہے، سندھ میں قائم ہونے والی کسی حکومت نے اس نقل مافیا سے نمٹنے کے لیے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا۔ ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں اس کو بڑھاوا ہی دیا ہے اور یوں اپنے ہی لوگوں کے ساتھ دشمنی کی۔ سوال یہ ہے کہ کیا سندھ کے لوگ اس دشمنی کو دشمنی سمجھتے بھی ہیں۔