ہوئے تم دوست جس کے

202

ہم سب ایک دوسرے کے ٹشو پیپرز کے سوا اور کچھ نہیں۔ ہمارے حکمران بیرونی طاقتوں کے ٹشو پیپر، سیاسی جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی ٹشو پیپر اور غریب عوام اپنے سیاسی رہنماؤں کے ٹشو پیپر ہیں جن کو مقصد براری کے بعد نہ صرف دور پھینک دیا جاتا ہے بلکہ ان کی دی ہوئی قربانیوں کو پاک صاف پیپر میں نہایت نفرت کے ساتھ لپیٹ کر کچرا کنڈیوں میں ڈال کر آگ لگادی جاتی ہے۔ یہ کوئی آج سے نہیں، جب سے انسانی تاریخ شروع ہوئی ہے یہی دیکھنے میں آرہا ہے لیکن اس میں دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر استعمال ہونے والا استعمال ہونے سے پہلے اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتا کہ وہ دھوکا کھارہا ہے اور اس کا انجام نہایت بھیانک صورت میں اس کے سامنے آنے والا ہے۔ بات یہیں آکر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ وہ تمام آنکھیں جو سب کچھ کھلی آنکھوں کے ساتھ یہ مناظر دیکھ رہی ہوتی ہیں وہ بھی اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں کہ جو سلوک ان سے پہلے والوں کا ہوا وہی سلوک خود ان کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے بلکہ اگر انہیں احساس دلانے کی کوشش بھی کرو تو وہ غیظ و غضب میں آ کر شعلے برسانے لگتے ہیں اس لیے کہ ان کے نزدیک پہلے والے اگر مارے گئے یا تباہ و برباد ہوئے تو اس میں ان کی بیوقوف کا دخل تھا لیکن وہ خود نہ تو عقل سے پیدل ہیں اور نہ ہی پہلے والوں کی طرح نادان کہ کسی سے دھوکا کھا جائیں۔
پاکستان اور موجودہ حکومت کے لیے اس خبر کو بہت خوش کن قرار دیا جارہا ہے کہ امریکا کے بقول صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم عمران خان کی ملاقات کے بعد وعدوں پر عمل درآمد کا وقت آگیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان مورگن آرٹگس نے واشنگٹن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور ٹرمپ کے درمیان پہلی ملاقات نے امریکی صدر اور وزیر خارجہ مائیک پومپیو کو موقع فراہم کیا کہ وہ ان کے ساتھ ذاتی تعلقات اور ہم آہنگی پیدا کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں سربراہان حکومت کی ملاقات کامیاب رہی۔ ترجمان نے کہا کہ افغانستان میں امریکا اور ناٹو فورسز نے بہت قربانیاں دیں اور اربوں ڈالرز خرچ کیے تاہم امریکا چاہتا ہے کہ افغان عوام اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں۔ مورگن آرٹگس کا کہنا تھا کہ ہم افغانستان میں قیام امن کے لیے پر عزم ہیں جس کے لیے عمران خان نے وعدہ کیا ہے کہ وہ طالبان پرافغان حکومت کے ساتھ مذاکرات پر زور دیں گے۔ اس سے قبل صدر ٹرمپ اور عمران خان کی مشترکہ پریس بریفنگ کے موقع پر صدر ٹرمپ خود ہی فرما چکے تھے کہ پاکستان میں بننے والی حکومتیں امریکا کی ہدایات پر عمل نہیں کیا کرتی تھیں جس کی وجہ سے امریکا نے امداد بند کردی تھی لیکن موجودہ حکومت کیوںکہ ان کے آگے مکمل ہتھیار ڈال چکی ہے اس لیے ہم پاکستان کی امداد بحال کر رہے ہیں۔ اسی بات کے تسلسل میں امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ اس بات کی تصدیق ہے کہ ہر جانب سے مجبور حکومت آخری کار امریکی پالیسیوں کے سامنے مکمل طریقے سے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے ہر اس ہدایت پر عمل کرنے کے لیے تیار ہے جو دنیا کے ’’شاہِ زمان‘‘ ٹرمپ جاری کریں گے۔
دنیا کے سارے ٹشو پیپرز استعمال ہونے کے بعد ڈسٹ بن میں پھینکے جانے سے قبل یہی سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی قدروقیمت کا یہ مقام ہے کہ اسے بادشاہوں کے درباروں تک رسائی حاصل ہے اور وہ اس بات پریقین کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے کہ ان کے ساتھ بہت بھیانک انجام ہونے والا ہے بالکل اسی طرح لگتا ہے کہ
پاکستان کی موجودہ حکومت بھی اس فریب کا شکار ہوچکی ہے۔ ایوب خان صاحب سے زیادہ امریکا کا پرستار کیا کوئی اور بھی پاکستانی حکمران ہو سکتا تھا، کام نکل آیا تو اس کے ساتھ کیا ہوا؟۔ یحییٰ خان جو امریکا کے بوٹ تک چاٹا کرتا تھا اس کے لیے امریکا کا ساتواں بحری بیڑا آکر نہ دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی پر چڑھادیا گیا لیکن امریکا نے گہرا سانس تک نہ کھینچا۔ ضیا الحق کو کتنے بھیانک انجام سے ہمکنار کیا اور پھر اس کے بعد آگے پیچھے آنے جانے والی پی پی پی، ن، پھر پی پی پی اور پھر ن کے ساتھ کیا کچھ نہیں ہوا۔ یہ ساری حکومتیں وہ تھیں جو امریکا پرستی میں (نعوذ باللہ) خدا پرستی سے بھی آگے آگے رہیں لیکن امریکا نے ان کے انجام پر مگرمچھ کے آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں بہایا۔ جنرل پرویز مشرف سے زیادہ امریکا پرست بھی کوئی حکمران دنیا میں نہیں گزرا ہوگا لیکن جب اس سے کام نکل گیا تو وہ بھی ٹشو پیپر بنا کر ڈسٹ بن میں پھینک دیا گیا۔ لیکن افسوس کہ ہمارے موجودہ حکمران ان سب کے بھیانک انجام دیکھنے کے باوجود بھی اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ ان ’’ٹشو پیپروں‘‘ میں سے نہیں جن کو گندگیاں صاف کرکے نہایت نفرت کے ساتھ سنڈاسوں میں پھینک دیا جاتا ہے بلکہ ہم تو ان رومالوں میں سے ہیں جن کو خوشبوؤں سے معطر کرکے لباس کی جیبوں کی زینت بنا کر رکھا جاتا ہے۔
امریکا کے دو چہروں کے منہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اِدھر عمران خان امریکا کے ’’کامیاب‘‘ دورے سے واپس آئے اْدھر تازہ ترین خبر کے مطابق امریکا نے پاکستان کو بخشے ہوئے ایف 16 جنگی جہازوں کی لاجسٹک اور ٹیکنیکی سپورٹ بحال کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ کیا یہ جدید ترین ایف 16 جنگی جہازوں کی لاجسٹک اور ٹیکنیکل سپورٹ اس بات کا کھلا اظہار نہیں کہ جس امن کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ اس کو بات چیت کے ذریعے قائم کیا جائے گا اس کو ایک مرتبہ پھر گولہ و بارود کی زبان کے ذریعے کچلنے کی سازش کی جارہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط کرنے اور پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوستی کی فضا کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے کوئی ایسا قدم اٹھایا جاتا جس سے نفرتوں میں کمی واقع ہوتی، ایف 16 کو لاجسٹک اور ٹیکنیکی سپورٹ دینے کے بجائے دونوں ممالک میں ترقیاتی کاموں کو فروغ دیا جاتا لیکن لگتا ہے کہ بات چیت کا جھانسا دیکرایک مرتبہ پھر طاقت کی زبان میں بات کی جائے گی، جنگ کے شعلے بھڑکائے جائیں گے، لاشیں گرائی جائیں گی اور خون کی ندیاں بہائی جائیں گی لیکن ہمارے حکمران آخری وقت تک اسی فریب میں مبتلا رہیں گے کہ وہ ٹشو پیپر نہیں بلکہ کاندھوں پر پڑے ریشمی یا جیبوں میں رکھے ہوئے خوشبوؤں سے معطر ایسے رومال ہیں جو شاہوں کے لباسوں کی قدر منزلت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
ایک جانب امریکا نے اپنے جال پوری مسلم امہ کے گرد پھیلائے ہوئے ہیں، 42 مسلم ممالک (ٹشو پیپرز) کی ایک فوج ظفر موج پہلے ہی تیار کرلی گئی ہے تو دوسری جانب پاکستان کے سالار بھی وائٹ ہاؤس اور پینٹاگون میں 21۔ 21 توپوں کی سلامیاں لے رہے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ اب جو جنگ ہونے والی ہے وہ چومکھی سے بھی کہیں زیادہ ’’مکھ‘‘ والی ہے اور اب جو بھی جنگ یا خونریزی ہوگی اس میں ہر دو جانب مسلمان ہی ہوںگے جس کا سب سے بڑا ثبوت ایف 16 جنگی جہازوں کو نئی زندگی دینا ہے۔ ان ساری باتوں کو سامنے رکھ کر اگر موجودہ حکمران پھر بھی اس فریب میں مبتلا ہیں کہ وہ ایک اور ’’ورلڈ کپ‘‘ جیت کر آچکے ہیں تو ان کے لیے یہی کہا جاسکتا ہے کہ
یہی اک فتنہ اپنی ویراں سامانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو