یوم سیاہ، قومی شاہراہ کی بندش، عدالت نوٹس لے

314

 

 

ماہ جولائی کی پچیس اور اٹھائیس تاریخ کو صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں دو بڑے سیاسی اجتماعات ہوئے۔ پچیس جولائی کو حزب اختلاف کی اپیل پر یوم سیاہ منایا گیا اور ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں عوامی جلسے ہوئے۔ اس ذیل میں کوئٹہ کے ایوب اسٹیڈیم کا فٹبال گرائونڈ بھی لوگوں سے بھر گیا۔ اس جلسہ کی انفرادیت یہ تھی کی اس میں اسیر سابق وزیر اعظم، میاں محمد نواز شریف کی صاحبزادی غالباً پہلی بار سیاسی دورے پر کوئٹہ آئیں اور جلسے سے خطاب کیا۔ کوئٹہ ائرپورٹ پر پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے استقبال کیا۔ مریم نواز اس دوران میں سیاسی طور پر مصروف رہیں۔ یوم احتجاج کی تیاریوں میں غالب حصہ پشتون خوا ملی عوامی پارٹی کا تھا۔ جلسہ گاہ میں بھی جھنڈے اُٹھائے اس جماعت کے کارکن غالب دکھائی دیے۔ جمعیت علماء اسلام ف صوبے کی بڑی جماعت ہے جس کی شرکت جزوی بھی نہ تھی۔ جے یو آئی کی پوری توجہ اٹھائیس جولائی کے ملین مارچ کے عنوان سے اجتماع پر مرکوز تھی۔ نیشنل پارٹی، پیپلز پارٹی اور عوامی نیشنل پارٹی جلسہ میں شریک تھیں۔ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر عبد المالک بلو چ، اے این پی کے سیکرٹری جنرل میاں افتخار نے تقریر کی، محمود خان اچکزئی نے صدارتی خطاب کیا۔ اٹھائیس جولائی کو جمعیت علمائے اسلام ف کے ملین مارچ میں لوگوں کا سمندر اُمنڈ آیا۔ زرغون روڈ پر ہاکی چوک سے سریاب پھاٹک تک تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ اطراف کی شاہراہوں پر بھی لوگوں کا ہجوم تھا۔ جے یو آئی کے کارکنوں نے واقعی کمال کر دکھایا۔ شہر میں نہ ہی ملین مارچ کے دوران شرکاء کی جانب سے کوئی بد نظمی دیکھی گئی۔ زبردست نظم و ضبط کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا۔ صوبے کے اندر مجموعی رائے یہ سامنے آئی کہ اس سے قبل اس قدر بڑے اجتماع کا منظر نہیں دیکھا گیا ہے۔ جے یو آئی نے پورے ملک میں ملین مارچ منعقد کیے، اور کوئٹہ میں یہ پندرھواں اور آخری مارچ تھا۔ جہاں مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف سے ماہ اگست میں حکومت چھوڑنے اور نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ اور اعلان کیا کہ اس ڈیڈ لائن کے بعد یعنی ماہ اکتوبر میں ملک بھر سے جمعیت کے کارکن اسلام آباد کے طرف آزادی مارچ کریں گے۔ ملک کی سیاسی فضاء سے اندازہ یہی ہو رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سیاسی حدت مزید بڑھے گی۔ چناںچہ جے یو آئی کے آزادی مارچ کو سرسری نہیں دیکھنا چاہیے۔ اب انحصار وفاقی حکومت پر ہے کہ وہ حزب اختلاف کے اشتعال اور احتجاج کو کتنا سنجیدگی سے لیتی ہے۔ یہ امکان پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اسلام آباد میں سیاسی کارکنوں کے اکٹھ کے بعد حکومت کے لیے زیادہ مشکلات پیدا ہوں گی۔
احتساب کے نام پر پکڑ دھکڑ، ذرائع ابلاغ پر قدغن جیسی پالیسیاں سود مند ثابت نہیں ہو رہیں۔ مریم نواز کے کوئٹہ جلسہ سے خطاب نشر کرنے سے میڈیا گریز پر مجبور تھا۔ لیکن ان رویوں سے چنداں فرق پڑنے والا نہیں۔ سیاسی بیانیہ پر پابندی سے اب اظہار کے دوسرے ذرائع استعمال ہونے لگے ہیں جو یقینا غیر محتاط اور بے مہار ہیں۔ لہٰذا قومی میڈیا پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی عمل کی راہ میں روڑے اٹکائے جائیں گے تو اس سے اشتعال، نفرتیں اور بد مزگی پھیلے گی۔ حزب اختلاف کے کوئٹہ میں ہونے والے پچیس جولائی کے جلسہ عام پر بھی اثر انداز ہونے کی کوششیں ہوئیں۔ صوبے کے بعض علاقوں سے کوئٹہ جانے والے سیاسی کارکنوں کی بڑی تعداد کو جلسہ میں شرکت نہ کرنے دی گئی۔ کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ کئی مقامات اور کوئٹہ پنجاب شاہراہ بوستان کے مقام پر کلاشنکوف اور دوسرے اسلحہ سے پوری طرح لیس نقاب پوش افراد نے دو یوم کے لیے بند کیے رکھا تھا۔ سیاسی کارکنوں نے البتہ معاملہ فہمی کا مظاہرہ کیا۔ کسی تصادم اور نا خوشگوار سانحے کے پیش نظر شاہراہ زبردستی کھولنے کی کوشش نہیں کی۔ وگرنہ ان ہزاروں افراد کے لیے ایسا کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا۔ مسلح افراد ایک تاجر کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے جو کوئٹہ کسٹم کے ڈپٹی کلکٹر عبدالقدوس شیخ کے قتل کے الزام میں تفتیش کی غرض سے حراست میں تھا۔ تعجب ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، ناٹو سپلائی اور دوسری مال بردار گاڑیاں دو روز روکی گئی تھیں۔ پوری شاہراہ مسلح جتھوں کے ہاتھوں یرغمال رہی۔ مسلح افراد سنگین نوعیت کی دھمکیاں دیتے۔ لیکن ضلعی انتظامیہ اور صوبائی حکومت کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ معلوم ہوا کہ انتظامیہ کے اہلکار مسلح لوگوں کو تاکید کرتے کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں تاکہ لوگ اپنے موبائل سے ویڈیوز نہ بنائیں۔ لیکن ویڈیوز پھیل ہی گئیں۔ ایک مقام پر گاڑیوں پر مشتمل جلوس کے شرکاء اہلکاروں کی نشاندہی کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ انہیں کوئٹہ جانے نہیں دیا جا رہاکہ انہیں اوپر سے اجازت نہیں۔ ظاہر ہے یہ مسلح افراد بھی عین اس روز قومی شاہراہوں کو بند کرنے کے لیے ہی بھیجے گئے تھے۔ وگرنہ ان لوگوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس روز بڑی تعداد میں سیاسی کارکن کوئٹہ حزب اختلاف کے جلسے میں شریک ہونے جائیں گے۔ یعنی نیت و مقصد حزب اختلاف کا جلسہ سبوتاژ کرنا تھا۔ مگر ان کی یہ خواہش پھر بھی پوری نہ ہو سکی۔ کیوں کہ جلسہ ہر لحاظ سے بھر پور تھا۔ مریم نواز کی تقریر اگرچہ برقی میڈیا پر نشر ہونے نہ دی گئی، مگر حقیقت یہ ہے کہ ملک کے کروڑوں افراد آن میں جلسے کی پوری روداد سے باخبر ہو گئے۔
حیرت اس بات کی ہے کہ ملک کے اندر آپریشن ردالفساد جاری ہے اور بلوچستان کی ایک اہم شاہراہ دو روز فساد کے نرغے میں تھی۔ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز، کمشنر، صوبائی وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ سمیت کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان مسلح افراد کے خلاف فوری کارروائی عمل میں لاتے۔ اور یہ افراد حراست میں لیے جاتے، ممنوع اسلحہ ضبط کرتے، ان پر مقدمات قائم کیے جاتے۔ اس کے برعکس مذاکرات کا ڈھونگ رچایا گیا۔ یوں اگلے دن رات کو خبر آئی کہ کامیاب مذاکرات کے بعد شاہراہ کھول دی گئی۔ مذاکرات بھی پی ٹی آئی کے ایک غیر معروف و غیر موثر رکن صوبائی اسمبلی مبین خان نے کیے۔ گویا شاہراہ کی بندش قوی اشارے پر ہوئی تھی، یہ سب کچھ ملی بھگت تھی۔ وگرنہ کسی بے تعارف و بے شناخت کی کیا مجال کے وہ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے بین الاقوامی شاہراہ بند کرنے کی جرات کرتا۔ کسی ذمے دار کی معطلی و تحقیقات کی اُمید نہیں ہے نہ صوبائی سرکار کرے گی۔ چناںچہ عدالت عالیہ بلوچستان متعلقہ ڈپٹی کمشنرز، کمشنر اور صوبائی وزیر داخلہ کو طلب کر کے ضرور باز پُرس کرے۔ وگرنہ قانون و سول ادارے اسی طرح بے وقعت وبے توقیر ہوتے رہیں گے۔