جنوبی ایشیا کا نیا گیم پلان

363

 

 

مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بھارت کی صورتحال دیکھ لی کہ اب ہر شعبہ روبہ زوال ہے اور ہر چیزبرائے فروخت۔ پہلے ریلوے کو جدید بنانے کے نام پر خوب بیرونی قرضہ لیا گیا تو اب اسے فروخت کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔ لال قلعہ سمیت تقریباً سارے ہی قومی ورثے کو کرایے پر چڑھادیا گیا ہے۔ بیرونی قرضہ 500 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے تو دوسری جانب بینکوں سے چند چہیتوں کے 2.4 لاکھ کروڑ روپے کا قرضہ بینکوں سے معاف کردیا گیا ہے۔ دیوالیہ ہوتی معیشت اور قرضوں کی بھاری معافی کی وجہ سے سارے ہی بینک خسارے کا شکار ہیں۔ وغیرہ وغیرہ
پاکستان کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔ جب عمران نیازی کو ملک کی مقتدر شخصیت کے طور پر سیلیکٹ کیا گیا، اس کے بعد سے ملک کی معیشت کا گراف عمودی طور پر نیچے کی طرف جارہا ہے۔ عمران نیازی نے بھی اقتدار سنبھالنے سے قبل مودی کی طرح دعویٰ کیا تھا کہ کرپٹ سیاستدانوں کا بیرون ملک بینکوں میں پڑا ہوا پیسا واپس لایا جائے گا جس سے ملک کی معیشت میں بہتری آئے گی۔ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا اور عوام دوست انصاف پر مبنی نظام لایا جائے گا۔ عوامی سہولتوں کو یقینی بنایا جائے گا، لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ کروڑوں نوکریاں فراہم کی جائیں گی، لاکھوں مکانات تعمیر کیے جائیں گے اور ایک ارب درخت لگائے جائیں گے۔ نئے ڈیم تعمیر کیے جائیں گے، پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بحال کی جائے گی۔ معیشت اتنی بہتر ہوجائے گی کہ پاکستانی بیرون ملک معاش کی تلاش میں نہیں جائیں گے بلکہ بیرون ملک کے لوگ پاکستان میں نوکری کرنے پہنچیں گے۔ ان وعدوں اور دعوں کی فہرست خاصی طویل ہے۔ عمران نیازی اور مودی کے عوام سے کیے گئے وعدوں اور دعوں کو دیکھیں تو ایک دوسرے کی فوٹو اسٹیٹ کاپی معلوم ہوتے ہیں۔ دوسری جانب دونوں کے برسراقتدا ر آنے کے بعد کیے گئے اقدامات بھی ایسے ہی لگتے ہیں کہ جیسا ایک ہی اتھارٹی نے انہیں جاری کیا ہے۔
عمران نیازی نے یوں تو ملک کی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے مگر ان میں سے قابل ذکر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی تیزی سے گراوٹ اور ٹیکسوں میں بھاری اضافہ ہے۔ صرف ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بھاری گراوٹ ہی نے پاکستانی معیشت کا کام تمام کردیا۔ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو تقریباً درآمدات پر ہی انحصار کرتا ہے۔ صرف چاول ایک ایسی جنس ہے جو آج تک درآمد نہیں کی گئی، اس کے سوا کون سی ایسی جنس یا مصنوعات ہیں جو پاکستان میں درآمد نہیں کی جاتیں۔ سب سے اہم اثر تو تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں پر ہی پڑا۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ تو ایک عام آدمی کی سمجھ میں آتا ہے کہ یہ درآمد ہوتا ہے مگر گیس اور بجلی تو پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ اصل میں پاکستان کی حکومتوں نے بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں سے بجلی ڈالر میں خریدنے کا معاہدہ کیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے کی ڈالر کے مقابلے میں روپیہ گرتا ہے، خود بخود بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح گیس نکالنے والی کمپنیوں سے بھی پاکستان کی حکومتوں نے عالمی نرخوں کے مطابق گیس خریدنے کے معاہدے کیے ہوئے ہیں۔ یوں ڈالر کی قیمت میں اضافے یا عالمی مارکیٹ میں گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی پاکستان میں بھی گیس کی قیمتوں میں ازخود اضافہ ہوجاتا ہے۔ گیس، بجلی اور پٹرولیم ہی وہ بنیادی اجزاء ہیں جن کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی ہر چیز کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔
رہی سہی کسر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے نے پوری کردی ہے۔ اب پاکستان میں بھی ہر پیداواری شعبہ روبہ زوال ہے۔ فیکٹریاں بند ہورہی ہیں اور کارکن بے روزگار۔ بجلی اور گیس کے نرخوں میں کئی گنا اضافے نے عام لوگوں کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ بھارت کی طرح پاکستان میں بھی تعمیرات کا شعبہ بالکل بند ہوگیا ہے جس کی وجہ سے سیمنٹ، سریا، ٹائلز، رنگ سمیت دیگر تمام ملحقہ صنعتیں بھی بندش کا شکار ہیں۔ جتنا قرض گزشتہ دو ادوار میں لیا گیا تھا، اتنا قرض عمران نیازی نے اپنے اقتدار کے پہلے برس ہی میں لے لیا۔
جس طرح مودی نے کرپشن کے خلاف جہاد کے نام پر اپنے تمام مخالفین کو سلاخوں کے پیچھے پہنچادیا، بالکل یہی کام عمران نیازی نے بھی کیا۔ جس طرح بھارت میں کرپشن کرنے والوں سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جاسکی، یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ جس طرح بھارت میں عدلیہ سمیت تمام ہی ریاستی اداروں کو مفتوح کرلیا گیا ہے، بالکل یہی صورتحال پاکستان میں بھی ہے۔ مودی اور عمران نیازی میں ایک قدر مشترک اور بھی ہے اور وہ ہے مذہب کا استعمال۔ مودی نے بھی ہندوتوا کو اپنے اقتدار کے دوام کے لیے پیش کیا تو عمران نیازی نے بھی اپنی پہلی تقریر میں مدینہ کی ریاست کا ذکر التزام کے ساتھ کیا۔ عمران نیازی کو جاننے والے جانتے ہیں کہ عمران نیازی اور اسلام میں اتنا ہی فاصلہ ہے جتنا مشرق اور مغرب میں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران نیازی اسلام کے حوالے سے اکثر غلط حوالے بھی دیتے ہیں اور صحابہ کے خلاف دریدہ دہنی بھی کرجاتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ بار بار مدینہ کی ریاست کا ذکر کرنے سے نہیں چوکتے۔
یہ اہم ترین حقیقت ہے کہ قومیت کا جوش جس میں مذہب کا تڑکا لگا ہو، ایسا امرت دھارا ہے جس میں ہر مرض کا علاج موجود ہے۔ مذہب کے امرت دھارا کے زیر اثر عوام یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آپ نے کیا وعدے کیے تھے، ملک کی معاشی، سماجی اور سلامتی کے اشاریے کیا کہہ رہے ہیں، پہلے دو وقت کی روٹی ملتی تھی تو اب ایک وقت کی ملنے لگی ہے، مگر کوئی بات نہیں۔ مذہب اور قومیت کا جوش سب کچھ بھلا دیتا ہے۔ مودی مذہب اور قومیت کی اس دھن پر جنونی ہندوؤں کو اپنی انگلی کے اشارے پر نچانے میں کامیاب رہے۔ اس کے بعد کا کام انتہائی آسان ہوجاتا ہے۔ ان جنونی مذہبی افراد کو پوری قوم پر مسلط کردیا جاتا ہے۔ پولیس اور عدلیہ کو ان کے ماتحت کردیا جاتا ہے اور مین اسٹریم میڈیا پر ان ہی کے راگ شروع کردیے جاتے ہیں۔ جو ذرا بھی عقل کی بات کرنے کی کوشش کرے، اسے پہلے تو نکّو بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اگر تب بھی نہ مانے تو اسے پرتشدد طریقے سے ہجومی سیاست کے ذریعے تحلیل کردیا جاتا ہے۔
مودی اور عمران نیازی دونوں ہی کو برسراقتدار لانے کے لیے ہر طرح کی سازشیں کی گئیں اور حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ان دونوں کو بیک وقت بھارت اور پاکستان میں لانچ کرنے کے کیا اہداف مطلوب ہیں۔ اس پر گفتگو آئندہ آرٹیکل میں ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے۔ ہشیار باش۔