سیاسی اختلاف اور شہریت کی منسوخی

571

26 مئی 2016ء کو کوئٹہ کے سول سیکرٹریٹ کے سکندر جمالی آڈیٹورم میں ذرائع ابلاغ کے ساتھ انتہائی اہم نشست رکھی گئی تھی۔ ٹی وی اور اخبارات کے نمائندے بڑی تعداد میں شریک تھے۔ پولیس اور ایف سی کے اعلیٰ حکام موجود تھے۔ چھ دہشت گرد پکڑے گئے تھے ان سے تفتیش مکمل ہوچکی تھی۔ گرفتار دہشت گردوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کرلیا تھا۔ یہ سب افغان انٹیلی جنس کے اہلکار تھے، جو کوئٹہ اور دوسرے علاقوں میں بم دھماکے اور ہدفی قتل کرتے تھے۔ ان کی اعترافی ویڈیو دکھائی گئیں۔ پریس کانفرنس ختم ہوئی تو حکومتی نمائندے اور سیکورٹی حکام کے ساتھ مزید بھی گفتگو ہوئی۔ راقم اور شہزادہ ذوالفقار (صحافی و کالم نگار) نے ایک وزیر صاحب سے چند ساعت الگ بات چیت بھی کر لی۔ چوں کہ دہشت گردوں سے متعلق بتایا گیا کہ افغان جاسوسی کے ادارے سے وابستہ تھے۔ بات ہوئی کہ صوبے کے اندر بڑی تعداد میں مہاجرین یا افغان باشندے قیام رکھتے ہیں۔ اس بنا دہشت گرد آسانی سے آجاتے ہیں۔ چناںچہ اس تناظر میں اس شخصیت نے بتایا کہ جے یو آئی کا ایک سینیٹر بھی افغان باشندہ ہے۔ آڈیٹوریم سے سب نکل کر چلے گئے۔ تاہم مجھے تشویش ہوئی کہ آخر یہ سینیٹر ہے کون۔ اس طرح میں اور شہزادہ ذوالفقار سول سیکرٹریٹ میں موصوف کے دفتر گئے، انہیں اپنی تشویش سے آگاہ کیا جس پر ان صاحب نے بتایا کہ حافظ حمداللہ افغان باشندہ ہے اور سینیٹ آف پاکستان کے رکن ہیں۔ سچ پوچھیے مجھے ان صاحب کی معلومات اور سورس پر انتہائی حیرانگی اور تعجب ہوا۔ چنانچہ خود کو کوسا کہ اتنی سطحی بات کے لیے اتنی دیر تشویش میں مبتلارہا۔ اب جب سرکاری تعطیل کے روز (26اکتوبر 2019ء) پیمرا کی جانب سے برقی میڈیا کو بھیجا گیا مراسلہ (مراسلہ نمبر 13(87)/OPS/2016)) بابت حافظ حمداللہ کی شہریت کی منسوخی اور افغان باشندہ قرار دینے کا منظرعام پر آیا تو معلوم ہوا کہ اس طرح کی احمقانہ سوچ تنہاء کسی فرد کی نہیں بلکہ ملک کے بڑے
معتبر اداروں اور اس سے وابستہ افراد نے بھی اپنا رکھی ہے۔ پیمرا نے میڈیا کو بتایا کہ انہیں ٹاک شوز میں نہ بلایا جائے۔ حالانکہ اتنی بڑی زحمت کی ضرورت ہرگز نہ تھی۔ یعنی پیمرا کی جانب سے محض زبانی کہہ دیا جاتا تو یقینا کوئی میڈیا ہائوس انہیں اپنے پروگرام میں نہ بلاتا۔ اتنے چھوٹے کام کے لیے ایک سابق صوبائی وزیر اور سابق سینیٹر کی شہریت کی منسوخی کا کیا تک بنتا ہے۔ دیکھا جائے تو یہ عقل سے عاری اقدام حکومت اور اداروں کے لیے انتہائی سبکی کا باعث بنا ہے۔ پیمرا اور نادرا کا وقار اور اعتماد مجروح ہوا ہے اور ان کا بھی کہ جنہوں نے کسی خوشامدی کے کہنے پر نادرا اور پیمرا کو ایسا کرنے پر مجبور کردیا۔ ظاہر یہ ہوا کہ نادرا اور پیمرا دونوں ادارے زیر اثر ہیں۔ نادرا کے بارے میں یہ کہنا کہ اس کا معیار عالمی سطح کا ہے بھی لغو اور بکواس ہے۔ اگر ایسا نہیں تو نادرا حکام کو اچھی طرح معلوم ہے کہ اس خاندان کی شہریت کی تفصیلات کیا ہیں اور محض کسی کے کہنے پر اس خاندان کی تضحیک کی گئی۔ یقینا انہیں ٹھیس پہنچی ہے۔
عوام خاص کر پشتون عوام و قبائل کے اندر ان تمام اداروں کے بارے میں خفگی اور عدم اعتماد کا احساس پیدا ہوا۔ کم از کم نادرا کو اس حقیقت سے آگاہ کرنے کی ضرورت نہیں کہ حافظ حمداللہ کا خاندان پاک افغان سرحدی علاقے چمن کا قدیمی گھرانہ ہے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں کہ ان کے والد قاری ولی محمد جو پورے چمن میں قاری والئی کے نام سے معروف تھے نے1962ء میں کوئٹہ کے قدیم دینی مدرسہ تجوید القرآن سے قرأت پڑھی اور 1968ء میں چمن میں مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن کے نام سے درس گاہ کی بنیاد رکھی۔ اور اس مدرسے کی رجسٹریشن بھی اتنی ہی قدیم ہے۔ نادرا کو معلوم ہے کہ قاری ولی محمد مرحوم چمن میں سرکاری اسکول میں معلم القرآن رہے۔ اور یہ امر بھی ان کے ریکارڈ میں محفوظ ہے کہ قاری ولی محمدکے اس بیٹے حافظ حمداللہ نے 1968ء میں چمن میں آنکھ کھولی۔ چمن کے محلہ حاجی حسن کی وہ رہائش گاہ اب بھی موجود ہے۔ جس میں خاندان کے دوسرے افراد رہائش رکھتے ہیں۔ خود حافظ حمداللہ 14جولائی 1986ء کو جونیئر عربیک ٹیچر بھرتی ہوئے۔ والد کی وفات کے بعد اپنے مدرسے کے مہتمم اور مسجد کے خطیب رہے۔ گورنمنٹ مڈل اسکول مال روڈ چمن میں 2002ء تک پڑھاتے رہے۔ عملی سیاست میں آئے تو ملازمت چھوڑ دی۔ 2002ء کے عام انتخابات ایم ایم اے کے ٹکٹ پر چمن سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ برابر تین سال صوبے کے وزیر صحت رہے۔ پھر مارچ 2012ء میں بلوچستان سے ایوان بالا کی جنرل نشست پر منتخب ہوئے جہاں ان کی رکنیت کی مدت مارچ 2018ء میں ختم ہوئی۔ جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں جے یو آئی کی ٹکٹ پر کوئٹہ سٹی سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے انتخاب لڑا۔ 2005ء میں البتہ انہیں سپریم کورٹ نے بلوچستان کے رکن اور صوبائی وزیر کی حیثیت سے نا اہل قرار دیا وہ اس طرح کہ حافظ حمداللہ نے 2002ء میں انتخاب لڑتے وقت سرکاری ملازمت چھوڑنے کے بعد دو سال تک عملی سیاست نہ کرنے کے قانون پر عمل عملدرآمد نہ کیا۔ حافظ حمداللہ کے والد نے اپنے مدرسے کی رجسٹریشن 1967ء میں کرائی۔ 1974ء میں شناختی کارڈ اور 1975ء میں پاسپورٹ بنایا۔ اس پاسپورٹ پر ویزہ لگا کر 1976ء میں افغانستان گئے۔ شنید ہے کہ حافظ حمداللہ کا شناختی کارڈ 2018ء ہی میں بلاک کیا جاچکا ہے۔ ان کے والد قاری ولی محمد مرحوم ستر کی دہائی میں چلنے والی تحریک نظام مصطفیٰ میں جمعیت علماء اسلام کے دوسرے کارکنان اور رہنمائوںکے ساتھ گرفتار ہوئے تھے۔ تین ماہ تک سینٹرل جیل مچھ میں قید کاٹی۔ رہی بات عالمی معیار کے حامل نادرا کی تو اس کے کرتوت اور کارکردگی سب پر عیاں ہیں۔ ان کے تماشوں اور اعمال کی داستان کسی سے پوشیدہ نہیں۔
29 اکتوبر و کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے حافظ حمداللہ کی شہریت منسوخی کا فیصلہ معطل کر دیا ہے۔ نیز عدالت نے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) سے شہریت منسوخی پر دو ہفتوں میں جواب طلب کرلیا ہے۔ گویا نادرا اب عدالت کے سامنے جوابدہ ہے اور اس کے پاس اختیارات کے غلط استعمال کا جواب نہ ہوگا۔ سیاسی اختلاف، رقم بٹورنے اور دیگر وجوہ کو بنیاد بنا کر کسی کو آن میں غیر ملکی بنائے جانے کا یہ معیار قابل گرفت ہے۔ پشتون خوا میپ کے مجید خان اچکزئی کو ایسے ہی انتقام کا سامنا ہے۔ المیہ یہ ہے ایوانوں میں بیٹھے ان لوگوں کی دستایزات جانج پڑتال کی کسی نے زحمت نہ کی ہے، جنہوں نے کوئٹہ کے لوکل سرٹیفکیٹ بنا رکھے ہیں۔ نہ ان پر توجہ دی ہے جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں شریک ہیں اور پاکستانی بنے پھرتے ہیں۔ جبکہ ایسے کئی معززین، عدم شہریت کی ذلت سے دو چار ہیں۔ ان پر افغانی کا لیبل چسپاں ہے جو پاکستان کے سود وزیاں میں پوری طرح شریک ہیں۔ اس ملک کے قومی ایام میں دامے درمے شریک ہوتے ہیں۔ تجارت اور کاروبار میں نمایاں حصہ ہے۔ جن کے سبیل سیکڑوں گھروں کے چولہے جلتے ہیں۔ فلاحی و رفاعی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ کروڑوں روپے کی لاگت سے سرکاری اسکولوں کے اندر بلاکس اور لیبارٹریاں قائم کی ہیں۔ لیکن شہریت دینے کے بجائے مختلف طریقوں اور حربوں سے لوٹے جاتے ہیں۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سیاسی اختلاف و انتقام کے ان طریقوں سے گریز ہونا چاہیے۔