کرتار پور راہداری اور اختلافات

253

جسارت اخبار میں 8 نومبر 2019 کو شائع ہونے والی خبر کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے کہا ہے کہ ’’سکھ یاتری ایک سال تک صرف شناختی کارڈ کے ذریعے کرتارپور آسکیں گے، 20 ڈالر فیس صرف 2 روز کے لیے معاف اور پاسپورٹ کی شرط ایک سال کے لیے ختم کی گئی ہے‘‘۔ بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کو دیکھنے یا ان پر سوچنے والے اپنا اپنا زاویہ نگاہ رکھتے ہیں۔ اسی کو اختلاف رائے کہا جاتا ہے اور رائے کا یہ اختلاف اگر ایک دائرے میں ہو، ادب و لحاظ کو ملحوظ رکھ کر کیا جارہا ہو اور لب و لہجہ ضد اور انا کا اظہار نہ کر رہا ہو تو اسے ’’حسن‘‘ کہا جاتا ہے لیکن اگر ہر اندازِ نظر ان تمام رازیوں سے مختلف ہو تو یہ بات کبھی کبھی بہت سنگین صورت حال اختیار کر لیتی ہے اور نازک مسائل ہوں تو قومیں تقسیم کی جانب جا نکلتی ہیں۔ کرتارپور راہداری بھی پاکستان میں ایک ایسا ہی سنگین مسئلہ بنتی جا رہی ہے۔ ممکن ہے کہ جو اس کے کھولنے کے حق میں ہوں وہ پاکستان کے لیے کچھ اچھا ہی سوچ کر ایسا انداز فکر رکھتے ہوں لیکن وہ لوگ جو اس کے شدید مخالف ہیں وہ بھی ضروری نہیں کہ پاکستان کے لیے غلط سوچ رہے ہوں۔
برصغیر کے مسلمان اپنے اپنے مسالک اور دینی معاملات میں بہت جذباتی ثابت ہوتے رہے ہیں۔ جب کسی بات پر اختلاف پیدا ہوجائے تو عموماً دونوں فریق اپنی اپنی بات یا قائم کردہ موقف پر ڈٹ جاتے ہیں۔ اگر کوئی ٹھنڈے دل سے دونوں فریقوں کے موقف پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے طرز استدلال یا منطق کے مطابق بالکل درست ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب کئی دہائیوں قبل لاؤڈ اسپیکر پر اذان کا معاملہ اٹھا تو اکثر مقامات پر یہ بات کافی سنگین صورت اختیار کر گئی۔ اس وقت کے علما میں اختلاف پیدا ہوا۔ ایک گروہ کے نزدیک اذان یا نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکر استعمال کرنا درست تھا جبکہ دوسرا گروہ اس کا شدید مخالف تھا۔ تماشبین نے دوطرفہ موقف جانے بغیر ان کے اختلاف پر ملاؤں کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ دونوں جانب کے علما کا استدلال کچھ یوں تھا۔ ایک کہتا تھا کہ جب کسی مسلمان کے کان میں اذان کی آواز چلی جائے تو اس پر یہ فرض ہوجاتا ہے کہ وہ لازماً مسجد میں باجماعت نماز کے لیے حاضر ہو۔ لاؤڈ اسپیکر سے آواز میلوں دور تک جائے گی اور اس طرح جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھنے والا گناہگار بن جائے گا۔ میلوں دور کا فاصلہ طے کرکے آنا ہر کس و ناکس کے بس میں نہیں ہوا کرتا۔ دوسرا گروہ کہتا تھا کہ جہاں تک آواز جائے گی دین کو فرغ ملے گا اور رہا مسئلہ باجماعت نماز میں شرکت کا تو شرعی عذر کی موجودگی میں دین بہت سارے معاملات میں آسانیاں دیدیتا ہے۔ غور کیا جائے تو فریقین کی باتوں میں بہت وزن تھا اور کسی کے استدلال کو بھی آسانی سے رد نہیں کیا جاسکتا تھا۔
کرتار پور کی راہداری کئی لحاظ سے پاکستان کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ سکھوں کو بھارت کے بہت سارے رویوں یا امتیازی سلوک کا سامنا ہے جس کی وجہ سے وہاں اکثر ’’خالصتان‘‘ کے نعروں کی گونج سنائی دینے لگتی ہے۔ سکھوں کو اپنی عبادات کے لیے اگر پاکستان کی جانب سے کچھ آسانیاں فراہم کردی جائیں تو دوطرفہ سکھ خاندانوں کو اس سے اطمینان حاصل ہونے کے امکانات ضرور پیدا ہوںگے۔ کسی بھی ملک میں کسی بھی مذہب یا مسلک کے افراد کے آنے جانے سے ممالک کو فوائد ہی ہوتے ہیں۔ ایران، عراق میں لاکھوں زائرین آتے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کو (مذہب اور مسلک سے ہٹ کر) کافی آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ مسلمان حج کرنے اور روضہ رسول کی زیارت کے لیے دنیا بھر سے سعودی عرب جاتے ہیں، پورے سال عمرے کی غرض سے لوگ سعودیہ جاتے ہیں تو یہ وہاں کے لوگوں کے لیے ایک بہت بڑا ذریعہ آمدنی اور
ثواب و برکت کا کام ہے۔ اسی طرح نہ جانے کتنے زائرین بھارت کے شہر اجمیر شریف جاتے ہیں تو یہ بات بھارت کے لیے ایک اچھا ذریعہ آمدنی ثابت ہوتی ہے۔ کرتارپور کی راہداری بھی پاکستان کے لیے اچھی خبروں کا سبب بن سکتی ہے اور یہاں آنے والوں سے نہ صرف اچھی آمدنی کا ذریعہ پیدا ہو سکتا ہے بلکہ دو طرفہ تعلقات کی کشید گی میں بھی کسی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اس نقطہ نظر سے جائزہ لیا جائے تو یہ قدم پاکستان کے لیے برا نہیں ہے اور جو افراد اس نکتہ نظر کے مطابق حکومت کی حمایت میں ہیں تو ان کو غلط نہیں کہا جاسکتا لیکن کچھ وہ بھی ہیں جو کرتارپور راہداری کے مخالف ہیں تو ان کے اندازِ فکر پر بھی نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ شاید ان میں سے کسی کو بھی اس راہداری کے کھولنے پر اعتراض نہ ہو لیکن جن حالات میں اور جن آسانیوں کے ساتھ راہ داری کو کھولا جارہا ہے اس کے لیے مخالف رائے رکھنا کوئی ایسی بات نہیں جس پر بہت شدید رد عمل کا مظاہرہ کیا جائے۔ اگر نہایت سنجیدگی کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ کیسا عمل لگے گا کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کے گلے کاٹے جارہے ہوں۔ ان کو کرفیو کے حصار میں رکھ کر ان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جارہا ہو، خواتین کی عصمتیں پامال کی جارہی ہوں اور مسلمانوں کے خون سے نہ صرف کشمیر میں بلکہ ہندوستان کے ایک وسیع علاقے میں، ہولی کھیلی جارہی ہو اور ہم ان سب مناظر کو دیکھنے کے باوجود اْسی ملک کے ہر مذہب والوں کے لیے اپنی آنکھیں فرش راہ کیے ہوئے ہوں تو پھر مسلمانوں کے دلوں میں اشتعال تو پیدا ہوگا۔ اگر مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہنے کے مناظر دیکھنے کے باوجود ہم محض چند سکوں یا دنیوی مفادات کی خاطر اپنی گردنیں خم کر کے اسی ملک کے قاتلوں کو اپنے ملک میں داخل ہونے کے لیے بے پناہ آسانیاں فراہم کر رہے ہوں تو یہ عمل کسی بھی صورت پاکستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے قابل قبول کیسے ہو سکتا ہے۔
کرتارپور راہداری کا مسئلہ کوئی آج کا نہیں۔ یہ برسوں پرانہ منصوبہ ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو منصوبہ کئی برسوں سے تنازعے کا شکار تھا اگر اس کو موجودہ حالات کی روشنی میں مزید موخر کردیا جاتا تو کیا پاکستان کی معیشت تباہ و برباد ہو کر رہ جاتی؟۔ نیز یہ کہ کیا پاکستان نے اپنے نقطہ نظر کے مطابق جو آسائشیں اور رعایتیں سکھوں کو دیکر ان کے دل میں اپنے لیے گنجائش پیدا کرنے کی کوشش کی ہے وہ بھارت کو قابل قبول ہوںگی؟۔ کیا ہندوستان پاکستانیوں کو مختلف مقامات کی زیارتوں یا تفریحی مقامات کی سیاحت کے لیے بالکل اسی قسم کی آسانیاں فراہم کرنے کا اعلان کرے تو پاکستان اس کو من وعن قبول کر لے گا؟۔
پاکستان کی جانب سے دی جانے والی رعایتوں پر بھارت کی حکومت کو شدید اختلافات ہیں۔ جسارت میں شائع ہونے والی اسی خبر کی تفصیل میں درج ہے کہ ’’بھارت نے سکھ یاتریوں کے لیے اعلان کردہ مراعات لینے سے انکار کردیا ہے‘‘۔ پاکستان کیا، دنیا کا کوئی بھی ملک اگر اپنے ملک میں کسی بھی غرض (مثبت) سے آنے جانے کے لیے پاسپورٹ یا ویزے کی قید ختم کردے تب بھی کسی بھی ملک کا کوئی بھی فرد اپنے ملک کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے ملک کا سفر کیسے کر سکتا ہے؟۔
ایک اور بات جو ناقابل فہم بنتی جارہی ہے وہ یہ ہے ایک جانب تو ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر کشیدگی بڑھتی جارہی ہے۔ کشمیر کی کنٹرول لائن پر اب ہر روز کے حساب سے فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے اور جسارت ہی کی خبر کے مطابق مغربی سرحد پر بھی حالات بہت کشیدہ ہیں یہاں تک کہ افغانستان میں موجود سفارتی عملہ بھی اپنے غیر محفوظ ہونے کی خبریں دے رہا ہے۔ صورت حال ایسی پر آشوب ہو اور ہم اپنی سرحدیں بے پناہ رعایتوں کے ساتھ دشمنوں کے لیے کھول کر بیٹھے ہوں تو بات فہم و فراست سے بہت دور کی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ان تمام معاملات کو سامنے رکھ کر مقتدر حلقوں اور حکام بالا سے سے نظرثانی کی درخواست ہی کی جاسکتی ہے اور یہی عرض کیا جاسکتا ہے کہ
کاش وہ خود کو آئینے میں
میری آنکھیں بن کے دیکھے