حکومت کریں یا ہنکائے جانے پر خوش رہیں

142

موجودہ حکومت کی طرح ہر حکومت کے پاس قانونی مدت صرف 60 مہینے کی ہوتی ہے۔ ان 60 مہینوں میں سے 15 مہینے سے زیادہ تو گزر چکے ہیں۔ 15 مہینوں کا مطلب ہے کہ قانونی مدت کا 25 فی صد حصہ تو تمام ہو چکا ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت اپنی مدت کا 25 فی صد عرصہ گزارنے کے باوجود ابھی تک ’’تبدیلی‘‘ کے بجائے بڑے پیمانے پر انتظامی اور حکومتی عہدیداروں کے ’’تبادلے‘‘ میں مصروف ہے اور اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح ’’حکمرانی‘‘ کو درست سمت پر ڈال سکے۔ حقیقت یہ ہے وزیر اعظم عمران خان اپنی حکومت کی کارکردگی سے سخت مایوس اور پریشان ہیں اور اگر سچی بات کہی جائے تو خود ان کی سمجھ میں بھی یہ بات آکر نہیں دے رہی کہ خرابی کہاں ہے اور اس خرابی کو دور کرنے کا آغاز کہاں سے کیا جانا چاہیے۔
مجھے ماضی کے ایک عظیم ڈکٹیٹر اور فوجی حکمران ضیا الحق کی تقریر کا ایک جملہ شدت سے یاد آ رہا ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ میں ’’جس زخم کو معمولی سمجھ کر چھیڑتا ہوں وہ ناسور ثابت ہوتا ہے‘‘۔ یہی کچھ موجودہ حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے کہ وہ جس معاملے میں بھی ہاتھ ڈالتی ہے وہ بھڑ کے چھتے کی طرح پھٹ جاتا ہے اور بجائے یہ کہ اچھائی کی کوئی صورت پیدا ہو، ہر معاملہ حکومت کے لیے عذاب بن جاتا ہے۔ اندازہ لگائیں کہ جو حکومت ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر آئی تھی وہ 15 ماہ یعنی وہ اپنی قانونی مدت کا 25 فی صد سے بھی زیادہ عرصہ گزار دینے کے باوجود بھی مسلسل ’’تبادلوں‘‘ کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہو تو وہ اپنی حکومت کی نیا کو کسی ساحل تک پہنچانے میں کیسے کامیاب ہو گی۔
کل وزیر اعظم پاکستان پنجاب کے قلب میں موجود تھے اور انہوں نے پنجاب کی حکمرانی ٹھیک کرنے کے لیے پورے پنجاب میں بڑی اکھاڑ پچھاڑ کی۔ حکومتی اور انتظامی محکموں میں بڑے پیمانوں پر تبدیلیاں کیں اور شمال والے جنوب میں اور مغرب والے مشرق میں اٹھاکر پھینک دیے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پنجاب میں سارے اچھے اور بہترین کام کرنے والے، نیک شریف، محنتی اور ایماندار افسران اور اعلیٰ عہدیداران کو لے کر آئے ہیں جو پنجاب کو فرش سے اٹھا کر عرش تک لیجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی ان تبدیلیوں سے کئی سوالات اٹھتے ہیں جن میں سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ جو افراد چند دن پہلے مختلف محکموں میں تعینات کیے گئے تھے وہ بھی تو نیک اور شریف کہہ کر ہی تو بھیجے گئے تھے بلکہ ان پندرہ مہینوں میں ایسا 3 بار پہلے بھی ہو چکا تھا۔ جب وہ سارے نیک اور شریف سرٹیفکیٹ والے اہل ثابت نہ ہو سکے تو اب جو تعیناتی عمل میں آئی ہے ۔کیا وہ سب واقعی اہل ہی ثابت ہوں گے؟۔ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس جگہ سے یہ نیک، شریف، محنتی اور دیانتدار یا باالفاظِ دیگر ’’فرشتے‘‘ آپ نے پنجاب کے اہم عہدوں پر متعین کیے ہیں ان کی جگہ جو ناکارہ و نااہل افراد کو بھیجا گیا ہے تو وہاں کے نظام کا کیا انجام ہو گا۔ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جو افراد ناکارہ و نااہل ہیں ان کا صرف ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ ہی کیوں؟، کیا ان تبادلہ در تبادلوں کی وجہ سے ان کی نااہلی اہلیت میں بدل جائے گی؟۔ ایسے افراد جو کسی بھی لحاظ سے ریاست کے لیے منفعت بخش نہیں ہوتے، نااہل ہوتے ہیں اور بدعنوانی کی تصویر ہوتے ہیں، آخر ان کو ملازمتوں سے فارغ ہی کیوں نہیں کردیا جاتا اور ان کی جگہ تازہ بھرتیاں کیوں عمل میں نہیں لائی جاتیں۔ ان کے تبادلوں میں جو لاکھوں روپے ان کو ٹی اے ڈی اے کی صورت میں ملتے ہیں کیا وہ حکومتی اخراجات پر ایک بڑا بوجھ نہیں؟۔
وزیر اعظم! جس قسم کی مشکلات آپ کو اپنی بیوروکریسی سے ہے کیا ایسی مشکلات آپ سے پہلے والوں کو نہیں رہی ہوںگی۔ کیا یہ ساری بھرتیاں جھوٹی سچی جمہوری ادوار ہی میں عمل میں آئی ہوںگی، کیا پاکستان میں نہایت سخت مارشل لائی ادوار نہیں گزرے، کیا جمہوریت بحال ہونے سے قبل یہ سارے محکمے آسمانی مخلوق چلاتی رہی ہے۔ کیا ان مارشل لائی دور میں ان محکموں میں جنات کام کرتے رہے ہیں۔ جس طرح پچھلی حکومتیں ان ہی طاقتور ادوار میں رکھے گئے عہدیداروں سے کام نکالتی رہی ہیں آج آپ بھی ان کی جگہ کوئی آسمان سے فرشتے منگوا کر اپنی کارکردگی بہتر نہیں کر رہے ہیں البتہ اپنے ’’مطلب‘‘ کے لوگوں کا انتخاب کرے اس بات کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی نہ کسی طرح گورننس درست ہو جائے۔ اگر ایمانداری سے تجزیہ کیا جائے تو پہلے والوں اور آپ کی حکمت عملی میں کوئی خاص فرق نہیں علاوہ اس کے کہ آپ سے پہلے والے ان ہی ناکارہ افراد سے کسی نہ کسی طرح کام نکالتے رہے لیکن آپ 15 ماہ گزرجانے کے باوجود بھی ان سے کوئی کام نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکے جس کی وجہ سے آپ کے لیے مشکلات میں اضافہ در اضافہ ہوتا جارہا ہے۔
جنرل ضیا الحق درست فرماتے تھے کہ ’’میں جس چھتے میں ہاتھ ڈالتا ہوں وہ شہد کی مکھی کے بجائے بھڑ کا چھتا ثابت ہوتا ہے‘‘۔ اسی طرح آپ جس خرابی کو دور کرنے کے لیے کوئی قدم بڑھاتے ہیں آپ کو پھسل کر دس قدم پیچھے جانا پڑجاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک بدعنوانی اور لاقانونیت کے بڑے بڑے غار اور سوراخ بند نہیں کیے جائیں گے اس وقت تک ملک کو خوشحالی کی جانب نہیں لیجایا جاسکتا لیکن آپ جس ریاست کا نقشہ بدل دینا چاہتے ہیں اس میں حکومت کے ایوانوں تک پہنچنے کے بے شک کئی راستے ہیں لیکن سوال حکومت کا نہیں ’’اقتدار‘‘ کا ہے جو پاکستان میں آپ کی طرح کسی سول حکومت کو حاصل نہ ہو سکا۔ آپ ان خوش قسمت حکمرانوں میں ہونے کے باوجود کہ آپ کے ساتھ ریاست کا ہرادارہ شانے سے شانے ملا کر کھڑا ہے لیکن آپ 72 سال سے حکومت کرنے والی بیوروکریسی کی ابھی تک اصلاح نہ کر سکے تو پھر غور کریں کہ وہ حکمران جن کے ساتھ بے شک عوام کی بے پناہ تائید و حمایت تو رہی تھی لیکن وہ سب اداروں کے عدم تعاون کی وجہ سے اس بیوروکریسی کے ہاتھوں کتنی بے بسی محسوس کرتے رہے ہوںگے۔
آپ کو ایک بات پر اور بھی غور کرنا ہوگا اور وہ یہ کہ آپ کی پارٹی حقیقی عوامی پارٹی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی نہ تو پی پی پی کی طرح کی عوامی پارٹی ہے اور نہ ہی مسلم لیگ ن، جے یو آئی، جماعت اسلامی، اے این پی، حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی طرح کی کوئی پارٹی ہے۔ بے شک یہ بات آپ کو یا آپ کی تائید کنندگان کو گراں گزرے گی لیکن اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو آپ کی پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق میں کوئی خاص فرق نہیں۔ اس وقت آپ کے ساتھ شاید ہی وہ افراد ہوں جو 22 سال سے آپ کے ساتھ مسلسل چل رہے ہوں۔ حد یہ ہے کہ آپ کے وزرا اور مشیران کی فوجِ ظفر موج میں بھی واضح اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ماضی کی ہر حکومت میں کسی نہ کسی طرح بڑے عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ ہر چڑھتے سورج کے پجاریوں سے کچھ اچھی توقعات باندھ لینا دانش مندی نہیں کہلا سکتی اس لیے جہاں آپ بیورو کریسی کی خامیوں پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہیں وہیں آپ کو اپنے اندر ’’اِدھر اُدھر‘‘ سے آکر مل جانے والوں پر بھی نظر رکھنے کی بے حد ضرورت ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ ق نے اپنے دور کے 5 سال کامیابی سے پورے کیے، پھر زرداری نے بھی جیسا تیسا کرکے اپنا وقت گزارا اور مسلم لیگ ن بھی 5 سال پورے کر گئی لیکن یہ بات پوری دنیا کے علم میں ہے کہ مدت پوری کرنا یا جمہوریت کا مسلسل آگے بڑھنا کوئی اور بات ہوتی ہے اور ریوڑ کا ہنکایا جانا کوئی اور بات۔ مسلسل 3 جمہوری ادوار جس طرح ہنکائے جاتے رہے ہیں بالکل اسی طرح آپ کا دور بھی اس سے کچھ مختلف نظر نہیں آتا۔ اگر خوش قسمتی سے عدالت عظمیٰ نے پارلیمان ہی کو اصل ’’مقتدرہ‘‘ بنادیا ہے اور اس کی سپرمیسی کو ہر ادارے پر فوقیت دلا دی ہے تو آپ کی حکومت کے لیے یہ ایک بہت سنہری موقع ہے کہ پالیمان کی برتری برقرار رکھیں۔ اب یہ آپ کی کی ذمے داری ہے کہ آپ واقعی ’’حکومت‘‘ کرنا چاہتے ہیں یا پھر ’’ہنکائے‘‘ جانے پر ہی خوش رہیں۔