امریکی جارحیت اور افغان رہنما

220

جلال نُورزئی
بادی النظر میںواشنگٹن کی نیت افغانستان کو اپنی کالونی بنا نے کی تھی۔ اس کی منصوبہ بندی و حکمت عملی طالبان کو دبائو میں لاکر بغیر کسی جنگ و حملے کے اپنی افواج افغانستان میں داخل کر نے کی تھی ۔جس کا مطالبہ امریکی کر بھی چکے تھے۔اپنے طور پر متبادل حکومت کا بندوبست کر رکھا تھا ۔ کئی افغان رہنماء اور کمانڈر اس اسکیم کا حصہ بنائے جاچکے تھے۔ انہیں امریکا کے اندر اور دیگر جگہوں پرضروری و بنیادی تربیت دی جاچکی تھی۔یہ بات سمجھنے کی ہے کہ طالبان کی حکومت نے اُسامہ کے افغانستان چھوڑنے کے مطالبے سے کبھی انکار نہ کیا تھا ۔البتہ حوالگی کے حوالے سے جائز شرائط رکھی تھیں۔ وہ اس ضمن میں قانونی اور شرعی جواز چاہتے تھے۔ بار ہا واشنگٹن کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت امریکا کے ساتھ تعلقات بگاڑنے کے بجائے بہتر کرنا چاہتی ہے۔ اور واضح کیا کہ ان کی حکومت دنیا کے اندر دہشت گردی عملیات کو غیر انسانی و غیر شرعی سمجھتی ہے جس میں بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ نہ کسی کا دفاع کرتے ہیں خواہ وہ اسامہ بن لادن ہی کیوں نہ ہو۔گو یا امریکا اُسامہ کے مسئلے پر ہمہ پہلو سرگرم تھا۔ پاکستان کے اندر امریکی سی آئی اے ، امریکی سفارت خانہ وسفارت کاروں اور ساتھ دوسرے ذرائع نے طالبان رہنمائوں کو بات چیت میں مشغول کیے رکھا تھا ، اس کے ساتھ دوسرے ذرائع بھی استعمال کرتے تھے ۔اور پھر یوں ہوا کہ امریکی شہر نیویارک میں( نائن الیون ) ور لڈ ٹریڈ سینٹر،پینٹا گون اور دوسرے مقامات پر حملوں کے سانحات پیش آ ئے۔ اگرچہ اُسامہ بن لادن نے ان حملوں سے لا تعلقی کا اظہار کیا ،مگر وہ ہی مورد الزام ٹھیرائے گئے۔ ملا محمد عمر نے بھی اس واقعہ پر تشویش ظاہر کی اور مذمت کی۔ چناںچہ جاری کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ عالمی طاقت امریکا غضبناک ہوئی۔ چونکہ طالبان حکومت گرانے کی اسکیم بہت پہلے مکمل ہوچکی تھی ،چناں چہ اب امریکا براہ راست حملہ کرنے میں بھی آزاد ہوگیا۔درحقیقت امارت اسلامیہ افغانستان بات چیت میں سنجیدہ تھی۔ جبکہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ مسئلہ مذاکرات کی میز پر حل ہو۔ وہ افغانستان میں داخل ہونے کے لیے پر تول رہا تھا ۔ طالبان کی حکومت نے بہت ہی قابل عمل و قبول شرائط ر کھی تھیں۔ یہ کہ اُسامہ بن لادن افغانستان یعنی امارت اسلامیہ کے اعلیٰ کمیشن کے حوالے کر دیا جائے گا اور امریکا اس کمیشن کو جملہ ثبوت و شواہد فراہم کرے ۔ یہ بھی اجازت دی کہ عالمی ذرائع ابلاغ اور اقوام متحدہ اپنے نمائندے بھیجیں جو کمیشن کی کارکردگی اورفیصلے کا جائزہ لیں۔ یہ تجویز بھی پیش کی کہ اسلامی دنیا کے تین یا اس سے زائد ممالک کے اعلیٰ ججوں پر مشتمل کمیشن قائم ہو۔ اسامہ کمیشن کے رو برو پیش ہو۔قاضیوں کو ا پنے اوپر عائد الزامات کا جواب دے۔ یہ بڑے قاضی جو فیصلہ کریں امارت اسلامیہ کو قبول ہوگا۔البتہ شرط رکھی کہ یہ تمام کارروائی کسی اسلامی ملک میں ہو۔ نیز یہ صورت بھی رکھ دی کہ افغانستان کے اندر اُسا مہ پر ہر سطح و ہر طرح کی پابندیاں عائد کردی جائیں گی۔
طالبان بہ تکرار بڑی صراحت و صاف دلی کے ساتھ کہتے کہ وہ کسی کو اجازت نہیں دیتے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کسی ملک کے مفاد کے خلاف استعمال کریں امارت اسلامیہ نے سعودی عرب، اسلامی ممالک اور اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی سے اس تناظر میں ذمے داریاں ادا کرنے کی درخواست کی۔یہاں تک تجویز پیش کی کہ اسلامی ممالک کے ساتھ امریکی نمائندے بھی بیٹھ جائیں۔ لیکن امریکا بہادر کچھ تسلیم کرنے کو تیا رنہ تھا۔ اقوام متحدہ بے بس و ماتحت تھا۔ دراصل امریکا اصول و قانون کی راہ سے کسی حل کا خواہشمند نہ تھا۔ اُسامہ بن لادن کو اہمیت و شہرت دے کر دنیا کے اندر خوف کی فضاء پیدا کی گئی۔ جب امریکا کو بتایا گیا کہ اسامہ بن لادن افغانستان سے نکل گیا اور اب طالبان حکومت کو ان کی اپنی سرزمین پر موجودگی کی اطلاع نہیں ۔تو اس کے جواب میں بش اورامریکی افواج کے سربراہ نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ ان کا افغانستان میں اسامہ بن لادن کے علاوہ دوسرے مقاصد و اہداف بھی ہیں۔امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان’’ جیمز رابن‘‘ نے کہا کہ اگر اُسامہ افغانستان سے چلا بھی جائے تب بھی طالبان کے بارے میں امریکی پالیسی تبدیل نہ ہو گی ۔ امریکا نے طالبان سے افغانستان میں داخل ہونے کے لیے راستہ دینے کا مطالبہ کیا۔ دوسری صورت میں حملہ کرنے کی دھمکی دے رکھی تھی ۔ تاہم طالبان نے اپنی سرزمین پر امریکی افواج کے اترنے اور رسائی دینے سے انکار کیا۔ 8اکتوبر2001ء کی شب امریکا، ناٹو ممالک کی افواج کے ساتھ افغانستان پر حملہ آور ہوا۔ بش نے اس حملے کو صلیبی جنگ کا عنوان دیا ۔ پاکستان کے اندر اقتدار پرویز مشرف کے ہاتھ میں تھا جس نے ملک کی سلامتی اور خودمختاری دائو پر لگاتے ہوئے بلوچستان کا شمسی ایئر بیس ،سندھ کا جیکب آباد ہوائی اڈہ اور خیبر پشتونخوا کے ہوائی میدان امریکی افواج کے تصر ف میں دے د یے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ امریکا نے شواہد پرویز مشرف کے سامنے رکھ رکھے اور پرویز مشرف نے پاکستان کو اس سامراجی جنگ میں جھونک دیا جس کے باعث پاکستان کی سلامتی اور مفادات دائو پر لگ گئے۔ اس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔
(جاری ہے)