مسئلہ لوٹی ہوئی رقم کی تقسیم کا

198

منی لانڈرنگ کے مقدمے کا آغاز برطانیہ میں شروع تو کسی اور کے خلاف ہوا تھا لیکن اب معلوم ہوا کہ مجرمان تو کوئی اور ہی ہیں۔ اسی طرح بیماری کے چرچے تو کسی اور ہی کے کیے گئے لیکن بہت پاکستان سے باہر زیر علاج ہیں اور کچھ پاکستان میں لا علاج قرار دیے جانے والے ہیں اور عن قریب وہ بھی دنیا کے کسی نہ کسی اسپتال میں پڑے ہوئے نظر آئیں گے۔
ملک ریاض جو ایک موقع پر پاکستان میں اتنا مضبوط انسان سمجھا جاتا تھا کہ اگر چاہتا تو پاکستان ہی خرید لیتا لیکن آج وہ جتنا بے بس و لاچار نظر آرہا ہے یہ عبرت ہے ان تمام لٹیروں کے لیے جو دونوں ہاتھوں سے اْس پاکستان کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں جو محض اور محض اس لیے وجود میں آیا تھا کہ یہاں وہ نظام نافذ ہوگا جو اللہ کا ہے اور جس کو اللہ کے رسول دنیا میں نافذ کرنے کے لیے لے کر آئے تھے۔
جب کوئی کسی سے عہد باندھ کر توڑ دے تو وہ اْس کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ پاکستان بنانے والوں نے بھی اللہ سے ایک عہد کیا تھا لیکن 14 اگست 1947، رات ٹھیک 12 بج کر ایک سیکنڈ کے بھی ایک ہزارویں حصے کے اندر اندر اِس عہد کو فراموش کرکے اس ملک میں جس کو اللہ اور اس کے رسول کا نظام نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا، توڑ دیا گیا اور اس ملک میں اس قوم کے دستور اور آئین کو رائج کرنے کا اعلان کردیا جس کی 200 سالہ غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے 200 سال سے نہ صرف جد وجہد کی جارہی تھی بلکہ ان 200 برسوں میں نہ جانے کتنے لاکھ مسلمان اپنی جانوں، عزتوں، آبروؤں اور مال کی قربانی دیتے آئے تھے۔
دنیا میں بد عہدی سے بڑھ کر کوئی کریہہ فعل نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ بد عہدی جو اللہ سے کی جائے تو اس کی کراہیت کا اندازہ کون کر سکتا ہے۔ آج اگر ہم اپنی تباہی و بربادی کا دیانتداری سے تجزیہ کریں تو اس کا سبب وہی بد عہدی ہی ہوگا جو بندوں نے اپنے خالق سے کی تھی لیکن اس بات کو سمجھنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
کسی قوم کی اس سے زیادہ کیا بربادی ہوگی کہ اسے غیروں سے زیادہ اپنے تباہ کرنے کے درپے ہوں۔ اسے لوٹ رہے ہوں، گھسوٹ رہے ہوں اور نوچ نوچ کر کھا رہے ہوں۔ یہی صورت حال آج پاکستان کی ہے کہ اس کی ایک ایک رگ کا لہو نچوڑنے والے کوئی غیر نہیں بلکہ اپنے ہی ہیں۔ پاکستان کا لہو چوسنے والے کچھ تو وہ ہیں جو میڈیا کی شہ سرخیاں بنے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کے لیے جان بوجھ کر پورے پاکستان نے اپنی آنکھوں پر دبیز پردے ڈال رکھے ہیں۔ ان کی اکثریت جیل کی رونقیں بڑھا رہی ہے یا اسپتالوں کے بستروں پر بیماریوں کے سوانگ رچائے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جن کے چہروں سے قدرت خود ہی نقاب الٹتی جا رہی ہے۔ ایسی شخصیات میں ایک ڈاکٹر عاصم کی شخصیت سامنے آئی یا اب ملک ریاض کے چہرے کا دوسرا رخ سامنے آنا شروع ہو رہا ہے۔ کچھ وہ بھی ہیں جو امریکا میں ڈیم فنڈ سے اپنے گھر کے آگے اپنے خلاف الزامات کے آگے پشتے باندھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، کچھ دبئی اور برطانیہ میں بڑے بڑے محلوں کے خریدار ہیں، کچھ پورے پورے اپارٹمنٹوں کے مالک اور کچھ کے لیے آسٹریلیا میں پورا پورا جزیرہ خریدنا بھی کوئی دھنیہ پودینہ خرید لینے کے برابر ہے۔
پاکستان میں کوئی ایک ملک ریاض نہیں جس نے پاکستان کے ہاتھ پیروں کی ایک ایک رگ میں ’’کینولا‘‘ نہ لگا رکھا ہو یہاں لاکھوں افراد ایسے ہیں جنہوں نے پاکستان کے جسم کی ایک ایک نس میں موٹی موٹی سوئیوں والے ’’کینولے‘‘ گاڑ رکھے ہیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ ’’جلی‘‘ ہیں اور کچھ ’’خفی‘‘ اور کچھ بہت نحیف ہیں اور کچھ ’’مختارِ کل‘‘۔ حال ہی میں ملک ریاض کا نام جلی حرفوں کے ساتھ سامنے آیا ہے اور ایک ہی جھٹکے میں وہ اس بات کے پابند کر دیے گئے ہیں کہ وہ 190 ملین پونڈ جرمانا ادا کریں تاکہ اس رقم کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جاسکے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ جس رقم کو حکومت پاکستان کے حوالے کیا جارہا ہے کیا وہ رقم حکومت پاکستان ہی کی ہے؟۔ کیا حکومت پاکستان سے ملک ریاض نے زمینیں لیکر اسے دھوکے میں رکھا اور زمینوں کی رقم ادا نہیں کی۔ کیا ملک ریاض نے بینکوں میں میں ڈاکا ڈالا، کیا اس نے سرکاری خزانے لوٹے اور کیا حکومت سے قرض لیکر اسے ادا نہیں کیا؟۔ اگر ایسا ہے تو پھر تو یہ رقم حکومت کی ہے اور اسے حکومت کے حوالے ہی کیے جانا مبنی بر انصاف ہے لیکن اگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے تو اس رقم پر کسی بھی حکومت کا ذرہ برابر بھی کوئی حق نہیں بنتا۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان ہی کیا، اس پوری دنیا کے سیکڑوں ملکوں میں کوئی ایک بھی اتنا بڑا پراپرٹی ڈیلر نہیں جو ملک ریاض کے پاسنگ کا بھی ہو۔ ایک ایسا پراپرٹی ڈیلر جو پاکستان کا سب سے بڑا پراپرٹی ڈیلر ہے اس کی دولت کا سارا انحصار اس لین دین سے ہے جو عام لوگوں کے ساتھ ہے۔ کسی کی زمین پر قبضہ کرکے، کسی کو سستا بیچنے پر مجبور کرکے، کسی کو مقدمات کے جال میں پھنسا کے اور کسی کو کسی بھی ذریعے سے اپنی راستے سے ہٹانے کے بعد ہتھیائی گئی کوڑیوں کے مول زمینوں کو سونا کرکے فروخت کر کے جو دولت بھی حاصل ہوتی رہی اور اب تک حاصل ہورہی ہے، اسے پاکستان سے باہر منتقل کرتا رہا۔ اب کوئی انصاف سے بتائے کہ ایسا سب کچھ کرنے والا بغیر طاقتور اداروں کی پشت پناہی کے کرسکتا تھا؟۔ جس ملک میں ایک خوانچہ لگانے والا یا ایک ہاکر، گلیوں گلیوں گھوم کر بنا ’’بھتا‘‘ اپنی ایک ٹافی بھی نہیں بیچ سکتا ہو وہ کھرب ہا کھرب کا کاروبار بغیر ’’سیکورٹی‘‘ اور محافظت کے کیوں کر کر سکتا ہے۔
ملک ریاض کی صورت میں جو چہرہ ہم سب کو نظر آرہا ہے اس کے پیچھے کوئی اور چہرہ پوشیدہ ہے یا نہیں یہ بحث ایک الگ موضوع ہے، لیکن بات ہو رہی ہے اس پیسے کی جو حکومت برطانیہ نے حکومت پاکستان کے حوالے کیا ہے، کیا اس جرمانے کی رقم پر حکومت پاکستان کا کوئی حق ہے؟۔
ایک خبر کے مطابق ’’بحریہ ٹاؤن کراچی کے مقدمے کے مرکزی درخواست گزار سید محمود اختر نقوی نے کہا ہے کہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض سے لی گئی رقم پر وفاق کا نہیں بلکہ کراچی کا حق ہے۔ جمعہ کو محمود اختر کی جانب سے عدالت عظمیٰ کراچی رجسٹری برانچ میں دائر کی گئی درخواست میں کہا ہے کہ برطانیہ سے پاکستانی عدالت عظمیٰ کے حوالے کی جانے والی رقم کو اہل کراچی کی بہبود کے لیے استعمال کیا جائے‘‘۔ یہاں بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وفاق ہو یا کراچی، اس رقم پر کوئی بھی حق دونوں کا کیسے ہو سکتا ہے۔ اس پر حق ان ہزاروں افراد کا ہے جو بحریہ ٹاؤن کے متاثرین میں سے ہیں۔ جن سے زمین چھین لی گئی ہے، زور زبردستی سے کم قیمت ادا کی گئی ہے، مقدمات کی دلدل میں پھنسایا گیا ہے اور وہ لوگ جو اپنے اپنے پلاٹوں کی ادائیگیاں تو پوری یا ادھوری کرچکے ہیں لیکن ان کو اب تک اس بات کا علم ہی نہیں ہو سکا ہے کہ ان کا پلاٹ خلا میں ہے یا ہواؤں میں ہے۔ یہ ہیں وہ ساری باتیں ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے اور حقوق العباد پر ڈاکا ڈالنا ایک ایسا جرم ہے جس کو اللہ تعالیٰ بھی معاف نہیں کرتا۔ اس لیے رقم کی وصولیابی کے بعد حکومت کی ذمے داری اور بھی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اس رقم کو حق داروں تک پہنچائے ورنہ اللہ کی پکڑ بہت ہی شدید اور دردناک شکل میں سامنے آئے گی، اس دنیا بھی اور بروز حشر بھی۔