وائے ناکامی۔۔۔۔۔۔

156

 

حبیب الرحمن

میں حیران ہوں کہ پاکستان میں زیادہ یا کم نقصان ناپنے کا پیمانہ کب ایجاد ہوا۔ اس پیمانے میں کم از کم کی مقدار کیا رکھی گئی ہے اور زیادہ سے زیادہ کی کیا حد مقرر کی گئی ہے۔ میں حیران ہوں وزیر اعظم پاکستان کے اس بیان پر جس میں وہ بلوائی وکیلوں کے حملوں کے بعد یہ فرمارہے ہیں کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔ پھر اپنی ناقابل فہم گفتگو جاری رکھتے ہوئے مزید کہتے ہیں کہ: ’’میں نے وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان کو فون کیا اور پی آئی سی واقعے کی تفصیلات معلوم کیں۔ ان سے دریافت کیا کہ آپ کو وکلا تشدد کے باعث کوئی چوٹ تو نہیں آئی‘‘۔ آپ اندازہ لگائیں کہ انہیں اگر سب سے زیادہ کسی دکھ کا احساس تھا تو یہ تھا کہ ان کے ایک بد زبان وزیر کو زیادہ چوٹیں تو نہیں آئیں اور وہ ان کے نر غے سے بدقسمتی سے نکلنے میں کیسے کامیاب ہو گئے۔ ملک کے سربراہ کو جو فکر سب سے زیادہ ہونی چاہیے تھی وہ یہ تھی کہ وکیلوں کے درمیان جو مریض اور ان کے لواحقین گھر گئے تھے، جو مرد و خواتین نرغے میں آگئے تھے اور ڈاکٹروں، نرسوں اور اسپتال کے عملے سمیت سیکڑوں افراد تشدد کا شکار ہو رہے تھے، ان کا کیا حال ہے اور وہ دل کے مریض جو اس ہنگامہ آرائی کی وجہ سے جان ہی سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے ان کے لواحقین پر کیا گزر رہی ہوگی۔ اس کے بجائے انہیں اپنے ایک بدزبان وزیر کی خیریت زیادہ عزیز تھی۔ ممکن ہے کہ شاید میں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہو رہا ہوں لیکن بات صرف اپنے وزیر کی خیر خیریت دریافت کرنے پر ہی ختم نہیں ہوئی بلکہ ایک ملک کے سربراہ نے قوم کا دل یہ بات کہہ کر زیادہ زخمی کردیا کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔ یہ بات عقل و فہم سے اس لیے بھی بالا تر ہے کہ کہ ان کے اندازے کے مطابق کتنا اور نقصان ہوتا تو وہ اسے زیادہ نقصان میں شمار کرتے۔
اسپتال کے در ودیوار اینٹیں مار مار کے بد رنگ کردیے گئے، پورے اسپتال کے شیشے توڑ دیے گئے، گاڑیاں جلادی گئیں، ڈاکٹروں کے پوشاکیں تارتار کردی گئیں، جو نظر آیا اس کا سر پھاڑ دیا گیا، آئی سی یو ہو یا سی سی یو، سب میں داخل ہوکر مریضوں سے ان کے آکسیجن ماسک تک اتار کر ان کو موت کے گھاٹ بھی اتارا گیا اور موت کے دہانوں تک بھی پہنچادیا گیا، نرسوں کو بے لباس کیا گیا، ان کی عزتوں پر ہاتھ ڈالا گیا، فتح و کامرانی کے نعرے لگائے گئے، پولیس اور میڈیا کے نمائندوں کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا گیا۔ المختصر کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں چھوڑا جہاں درندگی کی حد نہ کردی ہو، یہاں تک کہ سر عام ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کرکے اس بات کا اظہار کیا گیا کہ ہمارے آگے نہ تو آئین و قانون کی کوئی اہمیت ہے اور نہ ہی دنیا کا کوئی قانون ہمارا بال بیکا کر سکتا ہے۔ ان سب مظاہروں اور ظلم و تشدد کے نظاروں کو دیکھنے کے باوجود بھی ملک کے وزیر اعظم کا یہ فرمانہ کہ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔ نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس قسم کی گفتگو میں سنگینی کے تاثر کی بھرپور جھلک بھی صاف نظر آ رہی ہے۔ وکلا کا ایسا مکروہ طرز عمل سامنے آنا جس کی توقع سفاک ترین دشمن سے بھی نہیں کی جاسکتی ہو، اس پر ان کے لیے سخت سے سخت ترین کارروائی کے بجائے انتظامیہ کی وکالت کرنا اور انتظامیہ کی اس غفلت پر سخت سزاؤں کا حکم نامہ جاری کرنے کے بجائے انتظامیہ کی تعریف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ساری طاقت اور قوت کا سر چشمہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بزدار صاحب کی ذات ہے۔
ہم اپنے بچپن میں اپنے بزرگوں سے اکثر جنوں کی جو کہانیاں سنا کرتے تھے ان میں اکثر یہی بات کہی جاتی تھی کہ فلاں جن کی جان فلاں پرندے کے انڈے میں ہے اور فلاں فلاں کی جان توتے، مینا یا کبوتر میں ہے اور اگر کوئی شہزادہ انڈے کو پھوڑ دے گا، یا پرندوں کی گردنیں مروڑنے میں کامیاب ہو جائے گا تو جن مر جائے گا۔ اس دور میں لگتا ہے کہ بہت ساری کرسیوں کی جانیں بھی کسی اور کی طاتقوں میں پھنسی ہوئی ہیں بالکل اسی طرح جیسے موجودہ حاکم کی جان پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی جان میں پھنسی ہوئی ہے۔ اندازہ لگائیں کہ لاہور میں ایک نہایت شرمناک واقعہ ہوا، درندگی کی انتہا ہو گئی اور انتظامیہ سو فی صد سے بھی زیادہ ناکام و نامراد ہوئی لیکن وزیر اعظم اسے بہترین حکمت عملی قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔ اس جملے میں کس جانب جھکاؤ نظر آرہا ہے اور اپنی کرسی کا تحفظ کس کی مدح خوانی میں چھلک رہا ہے۔
واقعہ کوئی منٹوں یا سیکنڈوں میں تو ظہور پزیر نہیں ہوا تھا۔ اس کے آثار تو کئی دن پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حادثے نے جو خوفناکیت اختیار کی اس کا اندازہ شاید پہلے سے نہیں لگایا جاسکتا تھا لیکن یہ بات تو طے تھی کہ ایسا کچھ ہونا ضرور ہے۔ یہ ہزاروں وکلا جو یاجوج ماجوج کی طرح پنجاب کے سب سے بڑے دل کے اسپتال کی جانب فوج ظفر موج کی شکل میں بڑھتے چلے آ رہے تھے، یہ بھی کوئی منٹوں سیکنڈوں میں اسپتال تک نہیں پہنچ گئے تھے اور نہ ہی ان کی سرگرمیاں کسی آتش فشاں کی طرح یک دم پھٹ پڑیں تھیں۔ مختصر یہ کہ ایسا سب کچھ کئی دنوں کی منصوبہ بندی کے بعد ہی ہوا تھا۔ اس سب صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی جناب وزیر اعظم کا یہ فرمانہ کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘، ایک ایسا بیان ہے جو کسی بھی سینے میں دل رکھنے والے کو ہضم ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ کوئی لاکھوں کا مجمع نہیں تھا، چند ہزار کالے کوٹوں کی شیطنت بھرا جتھا تھا جس کو دو تین درجن پولیس والے بھی بھی ناکام بنا سکتے تھے۔ اتنے پولیس والوں کا بھی بروقت انتظام نہ کیے جانے کو بھی بہترین حکمت عملی کہنا اور وہ بھی ملک کے سب سے بڑے سربراہ کا، ایک افسوسناک بیان تو کہا جاسکتا ہے لیکن ہوش مندانہ فرمان کسی طور بھی نہیں سمجھا جاسکتا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اتنے سنگین واقعے کے بعد اپنے جن جذبات کا اظہار کیا ہے اس سے صرف نظر کر بھی لیا جائے تب بھی راقم ان سے یہ ضرور دریافت کرنے کی جرأت کرے گا کہ ہمارے وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے آخر وہ کون سا آلہ ایجاد کرلیا ہے جس سے کسی بھی واقعے یا حادثے کی شدت کی پیمائش کی جاسکتی ہے۔ اس حیرت انگیز ایجاد کو نہ صرف عوام میں متعارف کرایا جانا چاہیے بلکہ اسے اتنا مشتہر اور عام کیا جانا چاہیے کہ دنیا کے ہر ملک میں اس کی گونج پہنچ جائے۔ پاکستان کے ایک ایک فرد تک یہ ایجاد موبائل فونز کی طرح موجود ہو تاکہ وہ ہر سانحہ کے بعد اس کی شدت کا خود ہی اندازہ کر سکے۔ دنیا کو بھی ہر گزرجانے والے حادثہ کے معمولی یا غیر معمولی ہونے کا اندازہ ہو سکے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ ہر حادثہ پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی زینت بننے سے بچ جائے گا کیونکہ اس میں یہ بھی درج ہوگا کہ اگر یہ کم سے کم لیول سے بھی نیچے ہے تو خواہ کتنا ہی خوفناک کیوں نہ ہو اس کا ذکر کسی بھی میڈیا پر نشر نہیں ہونا چاہیے۔
وزیر اعظم صاحب، آپ کے ملک کے وکلا اس درندگی کے بعد بھی اپنی درندگی پر شرمندہ دکھائی نہیں دے رہے۔ ان کی درندگی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ وہ فرماتے ہیں کہ ملک کے اسپتالوں میں روز درجنوں افراد مرتے رہتے ہیں اگر پی آئی سی میں موجود چار چھے اور ہلاک ہو گئے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ کیا اس کے باوجود بھی آپ یہی کہتے نظر آئیں گے کہ ’’لاہور واقعے میں موثر حکمت عملی کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا‘‘۔ میں تو پورے دردِ دل کے ساتھ وکلا کے اس بیان پر یہی عرض کر سکتا ہوں کہ ؎
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا