شیشہ کیفے اور حریم شاہ

558

روز نامہ جسارت میں ایک خبر شائع ہوئی ہے جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ’’دینِ عمرانی‘‘ کی ریاست مدینہ میں خرابی کی اصل جڑ کہاں واقع ہے اور اسی لیے پتوں، شاخوں اور تنوں کو کاٹنے سے کسی بھی قسم کی خرابی کو ختم کرنا ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ خبر کے مطابق ’’سائٹ (کراچی) سپر ہائی وے تھانے کی حدود میں جمالی پل کے نزدیک بنگلے میں شیشہ بار کی آڑ میں منشیات کا اڈہ قائم ہے‘‘۔ ایک تو یہی بات سمجھ سے باہر ہے کہ ’’شیشہ‘‘ خود ایک ممنوع چیز ہے تو پھر شیشہ بار کی ’’آڑ‘‘ کی کیا تک بنتی ہے۔ اس جملے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ شیشے کا نشہ کرنا، اس کے نام پر کاروبار کو کھولنا اور نوجوانوں کو تباہ برباد کرنا نہ صرف کوئی جرم نہیں بلکہ ’’دین عمرانی‘‘ کی ریاست مدینہ میں اس بات کی کھلی اجازت ہے کہ اس حرام کام کے ذریعے جو بھی دولت حاصل کی جائے گی وہ حلال اور جائز ہوگی اور اس کاروبار کو مزید ترقی دینے کی حکومت پاکستان کی جانب سے مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ جب ایک غیر قانونی کاروبار کی اجازت دے دی گئی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اس اجازت کی آڑ میں دیگر ناجائز کام یا کاروبار نہیں کیا جا سکے گا۔ چنانچہ خبر کی تفصیل میں کہا گیا ہے کہ ’’چائے بیٹھک کے نام سے قائم منشیات کے اڈے پر آنے والے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو حقہ شیشہ، چرس، آئیس اور شراب فراہم کی جاتی ہے‘‘۔ غضب یہ ہے کہ اس ہوٹل میں بات شیشے، چرس اور آئیس سے بھی آگے نکل کر ناچ رنگ، رقص و سرود اور شباب تک جا پہنچی ہے، لہٰذا اس کام کے لیے اس ’’چائے خانے‘‘ میں بہت سارے ایسے ’’خانے‘‘ بھی بنا دیے گئے ہیں جہاں سخت ترین سردیوں میں بھی گرم گرم بستر اور بستروں کو مزید حرارت بخشنے والے ساز وسامان میں مہیا کیے جاتے ہیں۔
ویسے تو پاکستان کا شاید ہی کوئی شہر یا قصبہ ایسا ہو جہاں عیاشیوں کے اڈے قائم نہ ہوں لیکن اس سے بڑھ کر جو افسوس اور اذیت کا مقام ہے وہ یہ ہے کہ ملک کے طول و عرض میں اس قسم کے زیادہ تر کاروبار قانون نافذ کرنے والوں کی سر پرستی میں ہو رہے ہیں۔ اسی خبر کی تفصیل میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ شیشے کے نام پر کھولے گئے اس ہوٹل کو مقامی پولیس کی سرپرستی حاصل ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مقامی تھانے کا ایس ایچ او اور تھانے کے اہل کار اس شیشہ ہوٹل سے صرف بھتا ہی وصول کرتے ہوںگے یا وہ تمام شیطانیت بھی حاصل کرتے ہوںگے جو نوجوان نسل اپنی بربادی کی صورت میں حاصل کر رہی ہے؟۔ کوئی بھی صاحب فہم اس بات سے کیسے انکار کر سکتا ہے کہ جب ہر قسم کے ناجائز اور حرام کاروبار کی سر پرستی کی جائے گی تو سرپرست اعلیٰ اور ان کے گماشتے کیسے اس لعنت سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔
اس میں کسی قسم کا کوئی بھی شک نہیں کہ ایسے کاروبار پر نظر رکھنا اور کسی بھی جگہ و مقام پر ایسا ہوتے دیکھ کر اس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا کام پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کا ہوتا ہے لیکن جب قانون نافذ کرنے والے ادارے خود ہی لا قانونیت پر اتر آئیں تو پھر مجرموں پر ہاتھ ڈالنا کسی بھی طور ممکن نہیں رہتا۔ کسی بھی قسم کی غیر قانونی سر گرمیوں میں شریک ہو کر، ان کی عیاشیوں میں اپنے اپنے منہ کالے کرنے کے بعد، ان سے بھتوں کی شکل میں لاکھوں کی حصے داری کرنا اور ان کے لیے آسانیاں اور تحفظ فراہم کرنا جیسے مذموم امور انجام دینے کے بعد یہ ممکن ہی نہیں کہ پھر کسی جمے جمائے کاروبار کی بیخ کنی کی جا سکے۔ اس قسم کا تعاون مجرموں کے حوصلے بڑھا دیا کرتا ہے اور پھر ہوتا یوں ہے کہ بلیاں اور کتے شیر بن جاتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایسی ساری شراکت داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذلت و رسوائی کا سبب بنتی ہے اور پھر یہی ذلت و رسوائی عوام میں اداروں کا اعتماد ختم کر کے رکھ دیتی ہے۔ بلیاں اور کتے کیسے شیر بنتے ہیں اس کا اندازہ نجی ٹی وی کی ٹیم کی جانب سے کیے گئے آپریشن کے دوران اس اڈے کے انچارج کے بیان سے خوب اچھی طرح کیا جا سکتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ’’پولیس کے ساتھ معاملات طے ہیں وہ اس اڈے کے خلاف کبھی کارروائی نہیں کرسکتی‘‘۔
کسی بھی قوم، رہنما، ادارے یا فرد کو خراب کرنا ہو اور ان سب کو اپنے اپنے فرائض منصبی سے باز رکھنا ہو تو اس کا آسان طریقہ یہی ہوتا ہے کہ اس کو حرام اور مردار کھانے اور فحش حرکات میں لگادیا جائے اور ان کو اس گدھ کی مانند بنا دیا جائے جو مردار خوری کی وجہ اپنی پرواز میں ’’کوتاہ‘‘ ہوکر اپنے سے کہیں چھوٹے شاہین و شہپر کی پرواز کے مقابلے سے باہر ہو جاتا ہے۔ یہی حال ہماری پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ہو چکا ہے جو خواہش نفس کا شکار ہو کر اپنے فرائض منصبی کو بھول بیٹھے ہیں اور جس کی وجہ سے گلی کوچوں کے آوارہ کتے بھی بستی بستی، گاؤں گاؤں اور شہر شہر شیروں کی طرح دہاڑتے اور غراتے پھر رہے ہیں یہاں تک کہ اعلیٰ عدلیہ کے حکم نامے اور اعلیٰ پولیس افسران کی جانب سے منشیات کے خلاف جہاد کے اعلانات کے باوجود شہر بھر میں اس طرح کے اڈوں کا قیام ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے۔
تمام قانون نافذ کرنے والوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ ان کی اس غفلت کا شکار صرف عام شہری اور ان کے بچے ہی نہیں ہوںگے بلکہ ان کے اپنے ذاتی کردار کی خرابی کا زہر خود ان کی اولادوں کے اندر تک بھی ضرور اترے گا اور پھر ایک زمانہ وہ بھی آئے گا کہ وہ جس مجرم پر بھی ہاتھ ڈالیں گے وہ خود ان کے اپنے ہی بچے ہوںگے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو یہ بات بھی اچھی طرح نوٹ کر لینی چاہیے کہ وہی تمام مجرمان اور غیر قانونی سرگرمیوں میں سرگرم افراد یا ان گروہوں کے سرخیل جن کا تحفظ، دانستہ یا نادانستہ طور پر ادارے فراہم کر رہے ہوتے ہیں، مقصد براری کے بعد یا قانون کی گرفت میں آنے کے بعد خود ان کی عزت کے لیے بہت بڑا خطرہ بن جاتے ہیں۔ ایسے گروہ یا افراد رازوں کا ایک بہت بڑا خزانہ اپنے پاس، خود اپنے تحفظ کے لیے جمع رکھتے ہیں اور اپنی سزا سے بچنے کے لیے ان کو افشاں کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ جس کی ایک بین مثال ’’حریم شاہ‘‘ کی صورت میں پاکستانی قوم کے سامنے ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں پاکستان کی عزت پر سوالیہ نشان کی صورت میں نظر آ رہی ہے۔ ایک عام سی عورت جس کا کوئی مضبوط ماضی بھی نہیں ہے آج کل وہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی بہت اہم شخصیت کے روپ میں دیکھی جا رہی ہے۔ اسے نہ تو کسی بھی قسم کا کوئی خوف ہے اور نہ ہی اپنی کسی بے غیرتی پر پشیمانی۔ جس عام سی ’’گشتن‘‘ کا یہ حال ہو کہ وہ حساس ترین مقامات تک کی پہنچ رکھتی ہو اور کسی بھی اہم شخصیت کی پگڑی اس کی جوتی کی نوک پر رکھی ہو، تو پھر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گے گی کہ اسے کسی ادارے یا پولیس کی فوج ظفر موج نے نہیں، ان رازوں نے محفوظ رکھا ہوا ہے جو اس کی پٹاری میں بند ہیں۔ وزیراعظم سے لیکر حکومت کی مشینری کے سارے اہم عہدیدار اس کی مٹھی میں کسے ہوئے ہیں اور بقول ’’حریم شاہ‘‘ اس کا کوئی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتا اس لیے کہ ایک جم غفیر اس کے جال میں پھنسا ہوا ہے۔
یہ بات طے ہے کہ حکومتی عہدیداروں ہی کو نہیں، تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئین و قانون کی عملداری کو یقینی بنائیں تو لازم ہے کہ ان سب کو ’’گڑ کھانا‘‘ چھوڑنا پڑے گا ورنہ دینِ عمرانی کی ریاستِ مدینہ میں نہ تو کبھی قانون کی حکمرانی قائم ہو سکتی اور نہ ہی کسی فرد یا ادارے کی عزت محفوظ رہ سکتی ہے۔ پاکستان کو اگر تمام پشیمانیوں سے بچانا ہے، قانون کی حکمرانی قائم کرنی ہے اور اس کو ایک فلاحی مملکت کی جانب گامزن کرنا ہے تو ہر قسم کی گناہوں اور لغزشوں اور ہر قسم کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی حرکتوں سے بہر صورت دور رہنا ہے۔