وہ ایک سجدہ

398

بات بہت سیدھی سادی سی ہے اور وہ یہ ہے کہ جو قوم جتنا ڈرے گی ڈرائی جائے گی۔ مذہب کوئی ایسا معاملہ نہیں جس کو کسی غیر مذہب قوم کی مرضی و منشا کے مطابق اتنا اختیار کیا جائے جتنا اس کی خواہش ہو۔ دنیا میں بیسیوں مذاہب کے انسان آباد ہیں اور کوئی ایک فرد بھی ایسا نہیں جو کسی دوسرے مذہب پر چلنے والے کو اس بات کی اجازت دے کہ وہ اس کے مذہبی معاملات میں مداخلت کرے اور اسے بتائے کہ اسے اپنے مذہب کو کس حد تک اختیار کرنا چاہیے اور کس حد تک نہیں۔ مذہب کے بڑے بڑے اصول تو ایک جانب ہیں، اگر کوئی فروعی مسئلہ بھی ہو تو کوئی بھی مذہب پسند اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ وہ اس کے مذہب کی ایسی باتیں جو بہت معمولی ہیں اور اس کو موخر کرنے میں کسی بھی قسم کی کوئی پرسش اللہ کے حضور نہیں ہونی تب بھی وہ اپنی مرضی سے تو ممکن ہے موخر کرنے پر راضی ہو جائے لیکن اگر اس میں کسی نے بھی زبردستی دکھانے کی کوشش کی تو وہ اس چھوٹی سی بات کے لیے مرتو سکتا ہے لیکن کسی زبردستی کو برداشت نہیں کر سکتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں داخل ہونے کے لیے چند کلمات کو زبان سے ادا کرنا اور دل سے ان ہی تعلیمات کو قبول کرنا شرط ہے لیکن یہ بات بھی مسلَّم ہے کہ وہ اقوام جو اسلام میں داخل ہونا پسند نہ بھی کریں اور اللہ کی وحدانیت اور محمد رسول اللہؐ کی رسالت کو نہ بھی مانیں لیکن اسلام کے بتائے ہوئے زریں اصولوں کو اپنی زندگی میں رائج کر لیں تو وہ سنہری اصول اس قوم کی دنیوی زندگی کو خوبصورت اور حسین بنا کر رکھ سکتے ہیں۔
اسلام عدل کی تعلیم دیتا ہے، انسانیت سکھاتا ہے، علم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، انسانیت کے احترام کا درس دیتا ہے، چھوٹے کو تمیز اور بڑے کو لحاظ کرنے کی ہدایت دیتا ہے، محبت، یگانگت اور حسن سلوک اس کے بنیادی اصول ہیں اور سب سے بڑھ کر صفائی کی تعلیم ہے جس کو وہ ’’نصف‘‘ ایمان کا درجہ دیتا ہے۔ اسلام کے ان سنہری اصولوں کا مطالعہ کرتے جائیں اور پھر اس بات کا جائزہ لیتے جائیں کہ دنیا کی جن اقوام نے مسلمان نہ ہوتے ہوئے بھی ان سنہری اصولوں کو اپنا جزوِ زندگی بنایا وہاں لوگوں کی زندگی کتنی آسان، پْر سکون، مطمئن اور خوش کن ہے لیکن اس کے برعکس دیگر اقوام، بشمول مسلمانوں نے اپنی زندگی کو اسلام کے ان سنہری اصولوں کے برعکس اختیار کر رکھا ہے، ان کی زندگی میں نہ تو سکون ہے، نہ اطمینان ہے، نہ خوشحالی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کے درمیان محبت و یگانگت ہے بلکہ ہر شخص ایک دوسرے کا لہو چوسنے کے لیے بالکل اسی طرح تیار ہے جیسے جنگل میں درندوں کے نزدیک کسی بھی قسم کا کوئی ادب، لحاظ اور تمیز نہیں ہوا کر تی۔
جب انسان اللہ سے سرکشی پر کمر بستہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کی اپنی مرضی اس پر سوار ہوجاتی ہے اور یہی وہ مرضی و منشا کا جنون ہے جو ایک اچھے خاصے انسان کو حیوان بلکہ شیطان بنا کر رکھ دیتا ہے اور پھر اس کے اندر دنیا کو اپنا غلام بنانے کا جنون ٹھوکریں مارنے لگتا ہے اور وہ جنون اس کو اتنا اندھا کر دیتا ہے کہ وہ دنیا کی ہر قوم پر اپنی برتری حاصل کرنے کے لیے چڑھ دوڑنے کے خبط میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ یہی حال آج کل امریکا کا ہے اور وہ اس جنون میں مبتلا ہو چکا ہے کہ دنیا اس کے اشاروں پر ناچے اور جو ناچنے سے انکار کرے وہ اسے تباہ و برباد کر کے رکھ دے۔
کوئی انسان کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، وہ اندر سے کھوکھلا اور بزدل ہی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے مقابلے کے فرد سے الجھنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی طاقت کا سارا جاہ و جلال اپنے سے کمزور ہی کے لیے نہیں بلکہ نہایت کمزور کے لیے ہوتا ہے۔ فی زمانہ دنیا میں بہادر ترین قوم ہونے کے باوجود بھی دنیا کی کمزور ترین قوم مسلمان ہی ہیں۔ ایک عام مسلمان تو اب بھی اپنے دین کی حرمت کی خاطر مرجانے کے لیے تیار و آمادہ نظر آتا ہے جس کی بہترین مثال کشمیر، فلسطین اور افغانستان کے مسلمان ہیں لیکن 60 کے قریب مسلمان ممالک پر حکومت کرنے والے حکمران اتنے پست حوصلہ اور بزدل ہیں کہ دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے ہوئے ان کے اوسان خطا ہونے لگتے ہیں۔ یہی بزدلی اور کم ہمتی ہی ہے جس کی وجہ سے ایک جانب تو وہ اللہ کی کتاب میں درج احکامات کو اپنے آئین و قانون کی زینت بنانے سے ڈرتے ہیں تو دوسری جانب امریکا کی غلامی میں اس حد تک آگے جا چکے ہیں کہ اپنا دین دھرم بھی امریکا کے بتائے ہوئے طریقے میں بدل دینا چاہتے ہیں۔
دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ جو بہیمانہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے، کشمیر میں جو کچھ مسلمانوں پر گزر رہی ہے، فلسطینی مسلمانوں کی جس طرح زندگی جہنم بنی ہوئی ہے، میانمر میں مسلمانوں کا خون پانی سے بھی سستا ہو کر رہ گیا ہے اور جو کچھ چین کے مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے ایسا سلوک تو کسی انسانی بستی میں جانوروں کے ساتھ بھی روا نہیں رکھا جاتا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ وہی امریکا جو کسی بھی ملک میں کسی جذباتی ماحول میں غیر مسلموں کے خلاف زیادتی پر بھڑک اٹھتا ہے۔ اسی قسم کا ایک بیان امریکی سرکار کا پاکستان میں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے بھی آیا ہے۔ امریکا نے کہا ہے کہ پاکستان میں وہ تمام اقوام جو مسلمان نہیں، وہ نہ صرف غیر محفوظ ہیں بلکہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک بھی روا رکھا جاتا ہے جو کسی طور امریکا بہادر کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے امریکا نے یہ بات کس حوالے سے کی ہے۔ یہاں نہ تو کسی مندر کو مسمار کیا گیا اور نہ ہی کسی چرچ پر حملہ ہوا۔ نہ ہی کسی بھی مذہب کی کوئی مقدس کتاب جلائی گئی اور نہ ہی یہاں کسی غیر مسلم کا قتل ہوا۔ رہی یہ بات کہ چھوٹی موٹی کشیدگیاں اگر ہوئی بھی ہیں تو اس کا شکار تو اکثر جگہ مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمان ہی ہوئے ہیں لیکن ایسا کوئی واقعہ بھی کسی نسلی یا مذہبی عصبیت کی بنیاد پر نہیں ہوا۔ اگر ایسا ہوا بھی ہے توکسی غلط فہمی کی وجہ سے ہوا ہے یا کسی غیر مسلم کی غیر محتاط گفتگو فتنہ و فساد کا باعث بنی ہے۔ رہی بات قادیانیت کی تو جب امریکا کی نظر میں قادیانی مسلمان ہی ہیں (نعوذباللہ) تو پھر وہ امریکا کی نظر میں ’’اقلیت‘‘ میں کیوں شمار ہوتے ہیں؟۔ امریکا کے اس متعصبانہ و فتنہ انگیز بیان پر پاکستان نے مذہبی آزادی سے متعلق امریکی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس کے نتائج، شفافیت اور ساکھ پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکی رپورٹ کا مذہبی آزادی کے فروغ کے لیے معاون ثابت نہ ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی رپورٹ میں مخصوص ممالک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ پاکستان میں مختلف مذاہب کے افراد کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ یہ رپورٹ پاکستان کے زمینی حقائق کے برعکس ہے۔
بات بہت سیدھی ہے، جو قوم، بشمول مسلمان، دوسری اقوام کو خوش رکھنے کے لیے جتنی بھی کوشش کرتی رہے گی اتنی ہی مغلوب سے مغلوب تر ہوتی جائے گی۔ یہ ناچ رنگ کے مناظروں کی عکاسیاں، یہ شراب خانوں کی تعمیر کی اجازتیں، یہ سینما گھروں کی تزئین و آرائش، یہ گرجا گھروں کی نگرانیاں، یہ کرتارپور کی راہداری کھولنا، یہ سکھوں کو گلے لگانا، یہ جہاد سے مسلمانوں کو روکنا، یہ کشمیریوں کے ظلم و ستم پر ہونٹوں پر تالے لگا لینا، لاؤڈاسپیکر ایکٹ بنا لینا اور یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی ہر چینل زادی کو ننگے سے ننگاتر کرکے، انہیں نچا کے اور ان کو گڈوں اور گڑیاؤں کی طرح سجا بنا کے ٹی وی اسکرین پر پیش کرنے سے اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ مغرب زداؤں اور امریکا پرستوں کی خوشنودی حاصل کر لیں گے تو یہ اس لیے بھی بھول ہے کہ وہاں کی سڑکوں، گلیوں، دکانوں، تفریح گاہوں اور سمندروں کے کنارے بغیر لباس پھرنے والیاں لاکھوں کی تعداد میں دستیاب ہیں۔ وہ اقوام آپ کی ان کمینی حرکتوں سے نہ تو خوش ہو سکتی ہیں اور نہ ہی آپ باوجود کوشش کے من حیث القوم ان جیسے بے غیرت بن سکتے ہیں۔ اس لیے آپ کسی قسم کے خوف کا شکار ہوئے بغیر اپنے آپ کو اپنے دین کے سانچے میں ڈھالیں اور پھر سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں۔ یہی واحد راستہ ہے جس کو اقبال نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ
وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
یاد رکھیں آپ کا دشمن اندر سے کھوکھلا اور بزدل ہے۔ ذرا بھی جرأت اس کو ہراساں کرنے کے لیے کافی ہے جس کی بہترین مثال افغان طالبان ہیں۔ اس نکتے کو سمجھیں ورنہ غلامی کی زنجیریں آپ کو اس بری طرح جکڑ لیں گی کہ ان سے آزاد ہونے کا تصور بھی محال ہو جائے گا۔