ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرایا جائے

320

امریکا کے دورے کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کی تعریف تو بہت کی گئی اور وہ بھی دنیا کے سب سے زیادہ طاقتور صدر ٹرمپ کی جانب سے، لیکن 21 توپوں کی سلامی پاکستان کے سپہ سالار کو دی گئی۔ ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جب ایران اور امریکا کے حالات کشیدہ ہوئے تو امریکا کی وزارت خارجہ کے پومپیو نے ایک بار پھر پاکستان کی حکومت، اس کے وزیرِ اعظم اور وزارتِ خارجہ کو بائی پاس کرتے ہوئے براہِ راست پاکستان کے آرمی چیف سے رابطہ کرکے دنیا کو یہ احساس دلایا کہ حساس نوعیت کی اگر کوئی بات پاکستان سے کرنا ہو تو وہ کس سے کی جانی چاہیے۔ س میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک کی سیکورٹی سالاروں ہی کی ذمے داری ہوتی ہے لیکن کچھ معاملات طریقہ کار کے بھی ہوتے ہیں جن کو نظر انداز کرنے سے بڑی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ بات اگر حکومت کے سب سے بڑے عہدیدار سے بھی کی جاتی تب تھی سالار تک ہی جانی تھی لیکن ایسا آئین و قانون کے مطابق ہوتا مگر امریکا میں حکومت کے سربراہ کے بجائے سالار کا استقبال اور پاکستان میں حکومت کو بائی پاس کرکے براہِ راست سالار سے رابطہ کسی اور ہی کہانی کی جانب اشارہ کر رہا ہے۔ بات اگر سالار سے بات کرنے پر ہی ختم ہوجاتی تو شاید پھر بھی تشویشناک نہیں ہوتی لیکن ٹیلی فونک رابطے کے فوراً بعد جو اہم ترین خبر سامنے آئی وہ یہ تھی کہ پاکستان کے عسکری حلقوں کی جانب سے امریکی سرکار کو جو شکایت پیدا ہو گئی تھی اور اس نے عسکری ’’تعلیم‘‘ اور ’’تربیت‘‘ کے سلسلے میں جو امداد اور سہولتیں واپس لے لی تھیں وہ سب کی سب بیک جنبش قلم بحال کر دی گئیں۔ خبروں کے مطابق امریکا کے صدر ٹرمپ نے پاکستان کے لیے فوجی تربیتی پروگرام بحال کرنے کی توثیق کردی۔ امریکا کی معاون نائب وزیر خارجہ ایلس ویلز کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ اس پروگرام کی بحالی کا فیصلہ امریکا کی قومی سلامتی کے پیش نظر کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان فوجی تعاون مزید مضبوط ہوگا۔
یہاں دو تین باتیں ایسی ہیں جن پر نہایت سنجیدگی سے غور کرنا بہت ہی ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ وزیر اعظم پاکستان کو امریکا میں وہ پروٹوکول نہ دینا جو کسی بھی ملک کی حکومت کے سربراہ کو دیا جانا چاہیے تھا بلکہ اس کے بجائے پاکستان کے سالار کو پرْتپاک انداز میں خوش آمدید کہنا بے معنی تو نہیں رہا ہوگا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ امریکا و ایران کے درمیان حالات کشیدہ ہوتے ہی ایک مرتبہ پھر حکومت کو اعتماد میں لینے کے بجائے براہ راست جنرل ہیڈ کوارٹر سے رابطہ کرنا اور اس کے فوراً ہی بعد وہ عسکری تعلیمی و تربیتی پروگرام جس کو اس نے خود ہی منسوخ کردیا تھا، یک طرفہ طور پر بحال کر دینا ایسی باتیں نہیں جس پر کسی بھی قسم کا غور وخوض نہ کیا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کئی دہائیوں سے دنیا کے بیش تر ممالک کا یہی طرزِ عمل سامنے آتا رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دنیا سرے سے ہی حکومت کو اعتماد میں نہ لیتی رہی ہو۔ نواز شریف کے دور تک بھی یہی دیکھا گیا کہ سیکورٹی سے متعلق جو ملاقاتیں بھی غیر ملکی وفود کی ہوئیں وہ وزر اعظم کے اعتماد کے ساتھ ہی ہوتی رہیں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ معاملات کو حکومتی سربراہ کے بغیر ہی حتمی شکل دیدی گئی ہو۔
یہ بات بھی غور طلب ہے کہ اس وقت ایران اور امریکا کے درمیان جو صورت حال پیدا ہوگئی ہے یہ واقعی غیر متوقع طور پر پیدا ہو گئی ہے یا اس بات کا پہلے سے ہی کوئی امکان موجود تھا جس کے لیے سالار کی مدت ملازمت ختم ہونے سے کئی مہینے پہلے ہی توسیع ملازمت کا نوٹس جاری کر دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عدالت کے فیصلے کے مطابق عسکری ایکٹ میں جو آئینی و قانونی سقم دور کرنے کے لیے کہا گیا تھا اس کو دور کرنے کی اتنی شدت سے ضرورت محسوس کیوں کی جانے لگی کہ احتساب کے سارے معاملات کو اچانک ایک جانب رکھ کر پہلے نیب قوانین میں ترمیم کی گئی تاکہ نیب ایسے افراد پر ہاتھ نہ ڈال سکے جو سیاسی لحاظ سے اتنے مضبوط ہیں کہ وہ اس ایکٹ میں ترمیم میں بڑی رکاوٹ پیدا کر سکتے ہیں اور اسی کے ساتھ ہی گرفت میں آئے ہوئے سارے بڑے ڈاکوؤں اور لٹیروں کو رہائی پر رہائی بھی ملتی گئی اور ’’میں نہیں چھوڑوںگا‘‘۔ کی ساری تکرار بھی ختم ہو کر رہ گئی۔
اگر تمام معاملات پر گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو پرویز مشرف کے دور کا وہ منظر آنکھوں کو سامنے پھرتا ہوا نظر آرہا ہے جب امریکا افغانستان پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا تھا اور پاکستان کے سامنے دو ہی آپشن تھے اور وہ یہ تھے کہ ہماری بات ماننا ہے یا نہیں۔ وہی منظر اب بھی اسی صورت میں ہمارے سامنے ہے کہ ایران کے ساتھ کشیدگی کے بعد پاکستان کے سامنے ’’ہاں‘‘ یا ناں‘‘ کا آپشن رکھ دیا گیا ہے۔ اس وقت بھی معاملات ’’سالار‘‘ سے طے کیے گئے تھے اور اس وقت بھی ایسا ہی کچھ سامنے آ رہا ہے۔
ان سارے معاملات سے بڑھ کر موجودہ حکومت کے لیے سب سے زیادہ سوچنے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت اس اعلان اور دعوے کی وجہ سے عوام کی نظروں میں چاند سورج ستارہ بنی تھی کہ پاکستان اب کسی حال میں بھی امریکا کی جنگ میں حصے دار نہیں بنے گا اور دوسروں کی جنگ اپنے اوپر مسلط نہیں کرے گا، اْس کا کیا بنے گا۔ ایران امریکا کی کشیدگی کی صورت میں امریکا سے تعاون کا مطلب اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان اسے اپنی زمین دے، لاجسٹک کی سہولت فراہم کرے، ائر بیسوں کو اس کے حوالے کرے تاکہ وہ ایران کے خلاف بھر پور کارروائی کر سکے۔ یہ عسکری تعلیم اور تربیت کی امدادیں بحال کرنا اور دیگر امور کے لیے امداد کی فوری بحالی یوں ہی تو عمل میں نہیں آرہی ہوگی یقینا اس کے پیچھے کوئی بہت بڑی منصوبہ بندی کا عمل دخل ہوگا۔
ان ساری کڑیوں کے سلسلہ وار ملتے چلے جانے کو کسی بھی صورت محض اتفاق نہیں کہا جاسکتا۔ کئی ماہ سے ایک تسلسل کے ساتھ جو کڑیاں بنائی جارہی تھیں وہ سب ایک دوسرے کے ساتھ جڑتی صاف نظر آ رہی ہیں لیکن لگتا ہے کہ یا تو ان تمام معاملات پر کوئی غور نہیں کرنا چاہتا یا پھر جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس پر بہت پہلے ہی ساری سوچ بچار کر لی گئی ہے۔
آج کی دنیا اس حد تک ایک دوسرے کے معاملات سے مربوط ہو کر رہ گئی ہے کہ کسی بھی ملک کے حالات و واقعات کا اثر دوسرے ممالک پر ضرور پڑتا ہے۔ خبر کے مطابق عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی حملے میں ایرانی جنرل کی ہلاکت کے متوقع مظاہروں پر کراچی میں امریکا، برطانیہ اور ایران سمیت مختلف ممالک کے قونصل خانوں کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔ کراچی میں خانہ فرہنگ ایران سمیت مختلف ایرانی اداروں اور اس نوعیت کی پراپرٹیز پر بھی حفاظتی انتظامات کا حکم دیا گیا ہے۔ سیکورٹی سیل کو اس سلسلے میں غیر محسوس طریقے سے بھرپور حفاظتی انتظامات کو انتہائی حد تک فعال کرنے کا حکم جاری کر دیا گیا ہے، جس کے بعد قونصل خانوں اور سفارتی عملے کی رہائش گاہوں کے اطراف بھی پولیس کے گشت میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیکورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ یہ سارے اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے نظر آ رہے ہیں کہ ہم ایک مرتبہ پھر 2 ہزار کی دہائی کی جانب پلٹ رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ وہ از سر نو اپنی خارجہ پالیسی پر غور کرے اور افغانستان کے بعد اب کسی اور اسلامی ملک کے لیے کوئی ایسی پالیسی کو اپنانے سے گریز کرے جس کی وجہ سے کوئی اور برادر اسلامی ملک کسی مشکل کا شکار ہو جائے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ حسب وعدہ امریکا کی کسی جنگ کا حصہ بن کر پاکستان پر کسی غیر کی جنگ کو مسلط نہ کریں۔ اس سلسلے وزیر اعظم نہ صرف قوم کو فوری طور پر اعتماد میں لیں بلکہ امریکی عسکری تعلیم و تربیت اور امداد کی بحالی کو مسترد کرکے قوم کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک کی صورت میں دنیا میں جانا پہچانا جا سکے۔